انڈونیشیی تاریخ کا سب سے بڑا ویکسین اسکینڈل
18 جولائی 2016گزشتہ ماہ انڈونیشی پولیس نے اس اسکینڈل پر سے پردہ اٹھایا تھا کہ سینکڑوں جزائر پر مشتمل تقریباﹰ 255 ملین نفوس والے اس ملک میں گزشتہ ایک عشرے سے نقلی ویکسین فروخت کی جا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس مجرمانہ اسکینڈل میں کم از کم سولہ افراد شامل ہیں اور ان میں ایک شادی شدہ جوڑا بھی شامل ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق انہیں گرفتار کرنے کے بعد تفتیشی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملزمان تپ دق، ہیپاٹائٹس بی اور تشنج سمیت کئی دیگر بیماریوں کی جعلی ویکسین بیچتے رہے ہیں۔
یہ ادویات وسیع پیمانے پر ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹوروں کو فراہم کی جاتی تھیں۔ انڈونیشیا کی وزارت صحت کے مطابق وہ نیشنل فوڈ اینڈ ڈرگ مانیٹرنگ ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ اس اسکینڈل کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد سے انڈونیشیا بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اس ملکی ادارے کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کا کام ادویات کے معیار پر نظر رکھنا اور صحت عامہ کے شعبے میں بہتری لانا ہے۔
تاہم ابھی تک ایسی کوئی بھی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے کہ ان جعلی ادویات کی وجہ سے کوئی ہلاکت ہوئی ہو۔ کابینہ کے سکریٹری پرامونو آنونگ کا کہنا تھا، ’’ہم اس اہم مسئلے کو ایسے ہی نہیں چھوڑ سکتے۔ گزشتہ روز صدر نے فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی کی تنظیم نو کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ان حکومتی اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ کبھی ایسا نہ ہو۔
انڈونیشیا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی کو اس وجہ سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اس کے کئی اہلکار سن 2013 ہی سے اس بارے میں آگاہ تھے لیکن وہ تب تک خاموش رہے، جب تک پولیس اس اسکینڈل کو منظر عام پر نہیں لے آئی۔
دوسری جانب حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ویکسین بچوں کے لیے خطرناک نہیں تھی اور متاثرہ والدین آئندہ ہفتے سے شروع ہونے والے حکومتی پروگرام سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کی دوبارہ ویکسینیشن کروا سکتے ہیں۔