1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا کے انتخابات کے متعلق آپ کو کیا جاننا چاہیے؟

13 فروری 2024

دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے مسلم اکثریتی ملک میں ووٹر چودہ فروری کو نئے صدر اور پارلیمان کا انتخاب کریں گے۔ یہ ایک دہائی میں قیادت کی پہلی تبدیلی کی سمت ایک بہت بڑا اقدام ہو گا۔

https://p.dw.com/p/4cKw2
تین امیدوار گنجر پرانوو, انیس باسویدان اور  پروبوو سوبیانتو جوکووی کے جانشین کی جگہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تین امیدوار گنجر پرانوو, انیس باسویدان اور پروبوو سوبیانتو جوکووی کے جانشین کی جگہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تصویر: DW

دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا میں 14فروری کو انتخابات ہو رہے ہیں، جس میں لوگ نہ صرف نئے صدر اور نائب صدر بلکہ پارلیمنٹ اور مقامی قانون ساز اداروں کے ارکان کے انتخاب کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

یہ ایک بہت بڑا مرحلہ ہے، جس میں تقریباً سترہ ہزار جزائر پر مشتمل اس ملک کے 270 ملین افراد میں سے 204 ملین سے زیادہ افراد نے ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے اندراج کرائے ہیں۔ یہ ووٹرز مشرق میں پاپوا سے لے کر مغرب میں سماترا تک تین ٹائم زونوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق رجسٹرڈ ووٹروں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے جن میں تقریباً 55 فیصد کی عمریں 17سے 40 سال کے درمیان ہیں۔

ایک دن میں مکمل ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا انتخابی عمل

موجودہ صدر جوکو ودودو، جو جوکووی کے نام سے مشہور ہیں، اپنی دوسری مدت صدارت مکمل کر رہے ہیں اور ملکی آئین کے مطابق اب الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ اس طرح اس سال کے انتخابات ایک دہائی میں قیادت میں پہلی تبدیلی کا سبب بنیں گے۔

پروبوو سوبیانتو جکارتہ میں ایک انتخابی ریلی کے دوران
پروبوو سوبیانتو جکارتہ میں ایک انتخابی ریلی کے دورانتصویر: Yasuyoshi Chiba/AFP/Getty Images

کون صدارتی امیدوار ہیں؟

تین امیدوار جوکووی کے جانشین کی جگہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں گنجر پرانوواور انیس باسویدان سابق گورنر ہیں اور عمر کی پچاسویں دہائی میں ہیں۔ تیسرے امیدوار پروبوو سوبیانتو موجودہ وزیر دفاع ہیں۔

بہتر سالہ سوبیانتو آرمی کی اسپیشل فورسز کے سابق کمانڈر بھی ہیں اور اس اعلیٰ ترین عہدے کے لیے تیسری مرتبہ میدان میں ہیں۔ وہ سن 2014 اور 2019 میں جوکووی سے ہار گئے تھے۔

اس بار اپنے امکانات کو مستحکم کرنے کے لیے سوبیانتو نے صدر کے بے حد مقبول بیٹے جبران راکابومنگ راکا کو نائب صدر کے لیے اپنے ساتھی کے طور پر چنا ہے۔

انڈونیشی صدارتی انتخابات ’اسلام کو غیر معمولی اہمیت‘

عمر میں سوبیانتو سے تقریباً نصف 36سالہ راکا، اس وقت سوراکانا شہر میں میئر کے بطور خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی امیدواری کو بہت سے تجزیہ کار نوجوان نسل سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔

سوبیانتو بھی ایک اعلیٰ سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ فوجی ڈکٹیٹر سوہارتو کے داماد تھے، جنہیں تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک اقتدار پر رہنے کے بعد 1998میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔

سوبیانتو پر سہارتو کی آمریت کے آخری دنوں میں فوجی سربراہ کے طورپر خدمات انجام دینے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے گئے تھے، حالانکہ یہ الزامات ثابت نہیں ہوئے اور سوبیانتو نے بھی ان الزامات کی تردید کی ہے۔

گنجر پرانوو وسطی صوبے جاوا کے سابق گورنر ہیں۔ انہیں ملک کی حکمراں انڈونیشیئن ڈیموکریٹک پارٹی آف اسٹرگل (P-PDI) کی حمایت حاصل ہے۔

پرانوونے موجودہ کابینہ میں وزیر محفوظ محمد کو نائب صدر کے لیے اپنے رننگ میٹ کے طورپر چنا ہے۔

وہ موجودہ صدر ودودو کے سیاسی انداز کو اپناتے ہوئے نچلی سطح کی تحریکوں سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امن کے لیے اسلام کی ’نئی تشریح‘ ضروری: انڈونیشی عالم دین

تیسرے امیدوارانیس باسویدان ہیں، جو انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے سابق گورنر ہیں۔ ان کے رننگ ساتھی اسلامک نیشنل اویکننگ پارٹی (پی کے بی) کے رہنما مہیمن اسکندر ہیں۔ یہ جماعت ملک کی سب سے طاقت ور اسلامی جماعتوں میں سے ایک ہے۔

باسویدان نے سن 2017 میں جکارتہ کے گورنر کے لیے باسوکی جہاجا پرناما، جو چینی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، کے خلاف الیکشن لڑا تھا۔ وہ نہ صرف انتخابات میں کامیاب رہے بلکہ ان کے حریف کو ایک مہم کے دوران قرآن کی توہین کرنے پر دو سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

ایک آزاد تحقیقاتی ادارے آرگنائزیشن لٹ بینگ کومپاس کے تازہ ترین سروے کے مطابق سوبیانتو کو دیگر دو امیدواروں پر کافی برتری حاصل ہے۔ تقریباً 39 فیصد ووٹروں نے ان کی حمایت کی جب کہ پرانوو کو 18فیصد اور باسویدان کو 16 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے۔

گنجر پرانوو مشرقی جاوا کے سابق گورنر ہیں
گنجر پرانوو مشرقی جاوا کے سابق گورنر ہیںتصویر: Willy Kurniawan/REUTERS

اہم موضوعات کیا ہیں؟

تینوں صدارتی امیدواروں نے جامع ترقی اور فلاح و بہبود پر ایک جیسے وعدے کیے ہیں۔

جوکووی کے اقتدار کی ایک دہائی کو عام طور پر جنوب مشرقی ایشیا کی اس سب سے بڑی معیشت کے استحکام اور ترقی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

تینوں دعویداروں نے موجودہ حکومت کے بیشتر اقدامات، بشمول کان کنی کو فروغ دینے، سماجی بہبود کو بڑھانے اور 32 بلین ڈالرکی لاگت سے ایک نئے  دارالحکومت کی تعمیر پر کام کو جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔

امیدواروں نے معاشی توسیع کے اولوالعزم اہداف طے کیے ہیں اور لاکھوں ملازمتیں پیدا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے اس کی کوئی تفصیلات نہیں بتائی ہیں کہ وہ ان مقاصد تک کیسے پہنچیں گے۔

انیس باسویدان اپنے حامیوں کے درمیان
انیس باسویدان اپنے حامیوں کے درمیانتصویر: Bay Ismoyo/AFP/Getty Images

کون ووٹ دے سکتا ہے اور ہم کب نتائج کی توقع کر سکتے ہیں؟

تمام انڈونیشی شہری جن کی عمر 17 سال یا اس سے زیادہ ہے وہ ووٹ دینے کے حقدار ہیں۔

کئی دہائیوں کی آمرانہ حکمرانی کے بعد، انڈونیشیا نے سن 1998 میں جمہوریت کو اختیار کیا اور برابری اور قومی اتحاد کے قومی فلسفے کو اپنایا جسے Pancasila کہا جاتا ہے، اور جو ملک کے آئین میں درج ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود یہ آئینی طور پر ایک سکیولر ریاست ہے جس میں مذہب اور ریاست علیحدہ ہیں۔ تاہم، سیاسی جماعتیں اکثر اپنی انتخابی مہم میں مذہب کو استعمال کرتی ہیں۔

آچے کی اسلامی حکومت کی نئی قانون سازی کی پذیرائی

ملک کی پارلیمنٹ فیصلہ سازی میں نسبتاً ماتحت کردار ادا کرتی ہے، پالیسی سازی کا اختیار ایوان صدر کے پاس ہوتا ہے۔

انڈونیشیا کے انتخابی قوانین کے تحت صدارتی امیدواروں کو ووٹ جیتنے کے لیے مجموعی ووٹوں کا 50 فیصد اور ہر صوبے میں کم از کم 20 فیصد ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

پارلیمان میں پہنچنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ان کے حصے کے لیے  چار فیصد ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے ابتدائی نتائج کا اعلان 14 فروری کی شام کو کیے جانے کا امکان ہے۔

حتمی سرکاری نتائج کو عام ہونے میں 35 دن لگ سکتے ہیں۔

اگر کوئی صدارتی دعویدار 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کرتا ہے، تو مقابلہ جون میں ٹاپ ٹو کے درمیان دوسرے اور آخری راؤنڈ میں جائے گا۔

نئے صدر اکتوبر میں حلف اٹھائیں گے۔

انسانی حقوق کے ایک آزاد ادارے کومناس ہیم نے کہا کہ لوگوں کے 17 گروہ ہیں جن کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے وقت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان میں معذور افراد، LGBTQ کمیونٹیز، مقامی کمیونٹیز اور مذہبی اقلیتیں شامل ہیں۔

شمالی سماتراصوبے میں، کومناس ہیم کو LGBTQ ووٹروں کے ساتھ امتیازی سلوک کی مثالیں ملی ہیں۔

انڈونیشیا کے قومی کمیشن برائے معذوری افراد کے کیکن پی تاریگن نے کہا کہ معذور افراد کی جانب سے ووٹ ڈالنے کا امکان بھی کم ہے۔ تاریگن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''رسائی اور مدد کی کمی معذوری کے حامل افراد کو اہل ووٹرز کے طور پر اپنے حق رائے دہی کے استعمال کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔''

ج ا/ ص ز (آرتی ایکاوتی)

سورابایا سے یونس گنٹور نے اس رپورٹ کی تیاری میں تعاون کیا۔