1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انٹیلیجنس سربراہ پر حملے کا منصوبہ پاکستان میں بنا، کرزئی

8 دسمبر 2012

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے الزام لگایا ہے کہ ان کے انٹیلیجنس سربراہ اسد اللہ خالد پر حملے کا منصوبہ پاکستان میں بنایا گیا۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ جمعرات کے اس خود کش حملے کے بارے میں پاکستان سے وضاحت طلب کریں گے۔

https://p.dw.com/p/16yau
تصویر: Reuters

اسد اللہ خالد اس حملے کے نتیجے میں زخمی ہو گئے تھے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان کو اسد اللہ خالد پر حملے کا ذمہ دار قرار نہیں دیا، تاہم انہوں نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ اس خود کش حملے کا منصوبہ پاکستان کے شہر کوئٹہ میں بنا۔ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کرزئی کا کہنا تھا کہ وہ یہ معاملہ پاکستان کے ساتھ اٹھائیں گے۔

کرزئی نے کہا: ’’بلاشبہ ہم پاکستان سے وضاحت طلب کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ آدمی (خود کش حملہ آور) جو مہمان کے رُوپ میں اسد اللہ خالد سے ملنے آیا، پاکستان سے آیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کابل حکومت کھل کر اور سختی سے وضاحت طلب کرے گی اور ایسی کسی بھی طرح کی معلومات چاہے گی، جو پاکستان کے پاس ہوں۔

افغان طالبان نے اسد اللہ خالد پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ تاہم حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ یہ اسلام پسند گروہ حملے میں ملوث نہیں ہے۔ انہوں نے کہا:’’ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان نے بہت سے دیگر حملوں کی طرح ہی یہ ذمہ داری قبول کی ہے۔‘‘

Afghanistan Geheimdienstchef Asadullah Chalid
اسد اللہ خالدتصویر: Reuters

انہوں نے کہا کہ ایسا پیچیدہ حملہ اور حملہ آور نے جس طرح بم چھپا رکھا تھا، یہ طالبان کا کام نہیں۔

افغان صدر نے مزید کہا: ’’یہ مکمل طور پر پیشہ ورانہ (کام) تھا، طالبان یہ نہیں کر سکتے اور اس میں بڑے اور پیشہ ورانہ ہاتھ ملوث ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں افغانستان، ترکی اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس کے موقع پر پاکستانی حکام کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کریں گے۔ حامد کرزئی نے کہا: ’’ہمارے لیے یہ بہت اہم مسئلہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اس سلسلے میں ہمیں درست معلومات دے گی اور سنجیدگی سے تعاون کرے گی تاکہ ہمارے شکوک مٹ سکیں۔

سرحد کے دونوں جانب شدت پسندوں کے حملوں اور پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی پر افغان شدت پسند گروپوں کی حمایت کے الزامات کی وجہ سے اسلام آباد اور کابل حکومتوں کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔

پاکستان ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔ اسلام آباد حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن میں مدد دینے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان پر اتحادی افواج کے حملے کے نتیجے میں افغان طالبان کی حکومت گری تو ان کی قیادت پاکستانی شہر کوئٹہ فرار ہو گئی تھی۔ پاکستان طالبان رہنماؤں کی کوئٹہ میں موجودگی سے انکار کرتا ہے۔

ng/aa (Reuters)