انٹيليجنس معاملات ميں ’سمجھوتے يا معاہدے‘ کی ضرورت، يورپی يونين
25 اکتوبر 2013نيوز ايجسی اے ايف پی کے مطابق اس اجلاس کے پہلے روز کے اختتام پر يورپی يونين کی جانب سے اعلان کيا گيا کہ امريکی انٹيليجنس کی جانب سے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل اور اس سے قبل فرانسيسی باشندوں کی جاسوسی سے متعلق خبروں کے حوالے سے جرمنی اور فرانس رواں سال کے اختتام تک واشنگٹن انتظاميہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے خواہاں ہيں، جن ميں وضاحت طلب کی جائے گی اور اس تنازعے کا حل تلاش کيا جائے گا۔ يہ اعلان يورپی کونسل کے صدر ہرمان فان رامپوئے نے پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کيا۔
اس موقع پر ہرمان فان رامپوئے نے مزيد کہا کہ جرمنی اور فرانس خفيہ سروسز سے جڑے معاملات ميں امريکا کے ساتھ ’کسی سمجھوتے يا معاہدے‘ کے تعاقب ميں ہيں تاکہ مستقبل ميں اس نوعيت کے واقعات سے بچا جا سکے۔ رامپوئے کے بقول اس سلسلے ميں ہونے والے مذاکرات ميں ديگر ممالک بھی حصہ لے سکتے ہيں۔ پريس کانفرنس سے خطاب کے دوران ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ برطانيہ کے امريکا کے ساتھ خاص روابط ہيں ليکن اس کے باوجود برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون بھی اس سلسلے ميں وہی موقف رکھتے ہيں جو کہ يورپی يونين کا ہے۔ ان کے بقول انٹيليجنس معاملات ميں باہمی تعلقات کے ليے نئے قوانين لازمی ہيں تاکہ ايک دوسرے پر اعتماد قائم رہے۔
دريں اثناء اطالوی وزير اعظم اينريکو ليٹا نے کہا ہے کہ جاسوسی سے متعلق خبروں کے باوجود يورپی يونين امريکا کے ساتھ ’ٹرانس اٹلانٹک ٹريڈ اينڈ انوسٹمنٹ پارٹنرشب‘ يا TTIP کے سلسلے ميں جاری مذاکرات کو معطل نہيں کرے گا۔ ليٹا نے مزيد کہا، ’’اس واقعے اور TTIP کے سلسلے ميں جاری مذاکرات کا کوئی تعلق نہيں۔‘‘ اطالوی وزير اعظم کا مزيد کہنا تھا کہ اٹھائيس رکنی يورپی يونين کے ليڈران اس بات پر مشترکہ طور پر متفق ہيں کہ اس امر ميں حقائق سامنے لانے کی سخت ضرورت ہے۔ ان کے بقول جرمنی اور فرانس کی جانب سے امريکا کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات اور وضاخت کی درخواست سے يہ معاملہ حل ہو جائے گا۔
يورپی يونين کے اس سربراہی اجلاس کے پہلے روز کے مذاکرات کے دوران امريکا کی جانب سے مبينہ جاسوسی اور اس کے يورپی رد عمل ہی اہم موضوعات رہے۔ متعدد يورپی ليڈران نے اس حوالے سے اپنی برہمی کا اظہار بھی کيا۔