1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انوارالحق کاکڑ: سیاسی قیادت یا مقتدر حلقوں کا انتخاب؟

13 اگست 2023

انتقال اقتدار سے قبل ایک اہم مرحلے پر کاکڑ کے اچانک انتخاب کا مطلب یہ بھی لیا جارہا ہےکہ اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی 'چانس ‘ لینے کے موڈ میں نہیں۔

https://p.dw.com/p/4V731
Pakistan | Anwaar ul Haq Kakar wird neuer Interims-Premierminister
سینیٹر انوا الحق کاکڑتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

سینیٹر انوارالحق کاکڑ کی پاکستان کے آٹھویں نگران وزیر اعظم کے طور پر نامزدگی کو ایک سر پرائز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اس باون سالہ پختون سینٹر کی ملکی مقتدر قوتوں سے شناسائی نئی نہیں۔ اس کے باجود سیاسی پنڈت اس بات کی کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ کاکڑ کے اچانک انتخاب کے پیچھے کیا وجوہات کار فرما ہو سکتی ہیں؟   

نگران وزیر اعظم کے لیے ہفتوں سے مقامی میڈیا میں گردش کرنے والے درجن بھر ناموں میں سے کوئی بھی نام وزیراعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کی فیصلہ ساز میٹنگ میں قبولیت نہ پا سکا اور راجہ ریاض کے ذریعے پیش کیے جانے والے ایک غیر متوقع نام کے سامنے شہباز شریف نے بغیر کسی اعتراض کے سر کیوں تسلیم خم کر لیا۔

Prime Minister Shahbaz Sharif
وزیر اعظم شہباز شریفتصویر: National Assembly of Pakistan/AP/picture alliance

 یہ سیاسی پنڈت اس کشمکش کا شکار ہیں کہ نگران وزیر اعظم کا نام راجہ ریاض اور شہباز شریف نے اپنی طرف سے قوم کو دیا ہے یا پھر کسی اور نے انہیں یہ نام پہنچایا ہے۔ بعض حلقے غیر متنازعہ شخصیت کے حامل ، پڑھے لکھے اور محنتی انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم کے لئے مقتدر حلقوں کا بہتر انتخاب بھی قرار دے رہے ہیں۔

ابتدائی حالات

 انوارالحق کاکڑ  1971ء میں بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم سن فرانسز ہائی اسکول کوئٹہ سے حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے کیڈٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لیا لیکن دوران تعلیم ہی انہیں والد کی وفات کے بعد کوئٹہ واپس آنا پڑا۔

 انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سےپولیٹیکل سائنس اور سوشیالوجی میں بیچلر ڈگری حاصل کی۔ انوار الحق کاکڑ اعلیٰ تعلیم کے لیے کچھ عرصہ لندن میں بھی مقیم رہے۔ اس کے علاوہ وہ فوج کے زیر انتظام  نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی متعداد سکیورٹی ورکشاپوں کا بھی حصہ رہے ہیں

انوار الحق کاکڑ پشتونوں کے معروف کاکڑ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو، براہوی، فارسی اور انگریزی زبانوں سے  بھی شناسائی رکھتے ہیں۔ انوارالحق کاکڑ نے کیرئیر کا آغاز ایک مقامی تعلیمی ادارے میں پڑھانے سے کیا۔

کوئٹہ میں مقیم ایک سینئر صحافی سلیم شاہد کے بقول انوار الحق کاکڑ کچھ عرصہ بلوچستان کے بچوں کو مقابلے کے امتحان کی تیاری کروانے اور انہیں بیرون ملک تعلیم کے مواقع دلوانے کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتے رہے ۔'' جن دنوں کاکڑ لندن میں مقیم تھے اس دوران  وہاں تعلیم کے لئے جانے والے کئی بلوچ بچے ان کے ہاں ہی قیام  کیاکرتے تھے۔  ‘‘

Pakistan | Anwaar ul Haq Kakar wird neuer Interims-Premierminister
نگران وزیراعظم کو بہت سے چیلنجز کا سامنا بھی ہےتصویر: Senate of Pakistan/REUTERS

’رائیٹ پرسن فار رائیٹ جاب‘

ایک سیاسی تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انوارالحق کاکڑ پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے ایک چھوٹے صوبے سے ہے۔ ان کی شخصیت غیر متنازعہ ہے۔ وہ پی ڈی ایم کی اس شرط پر پر پورا اترتے ہیں کہ نگران وزیراعظم کو سیاست دان ہونا چاہئییے۔ انوارالحق کاکڑ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں وسیع رابطے رکھنے والے شخص ہیں۔اور وہ ''پاور کوریڈورز‘‘ سے بھی واقف ہیں۔  

ڈان کوئٹہ سے وابستہ ایک سینئر صحافی سلیم شہزاد نے بتایا کہ انوار الحق کاکڑ کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے ۔ وہ ایک پڑھا لکھا شخص ہے جسے ''مین آف لٹریچر‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔  انہیں کتابوں سے شغف ہے  وہ بہت اچھے اسپیکر ہیں۔ انہیں لیکچرز کے لیے  فوج کے سٹاف کالج اور نیپا جیسے سول افسران کے اداروں میں بلایا جاتا رہا ہے۔'' میرے خیال میں اگر انوارالحق کاکڑ کو'رائیٹ پرسن فار رائیٹ جاب‘ قرار دیا جائے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ ‘‘

سیاسی کیریئر

سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے 2008 ء میں (ق) لیگ کےٹکٹ پرکوئٹہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا جس میں انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ انوار الحق کاکڑ پاکستان مسلم لیگ نون کے اس وقت کے رہنما ثنا اللہ زہری کی زیرقیادت بننے والی بلوچستان حکومت کےترجمان بھی رہے۔

 دو ہزار اٹھارہ میں وہ آزاد حیثیت میں سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)کی تشکیل میں سرگرم کردار ادا کیا ۔ وہ اس پارٹی کے بھی ترجمان رہے۔ جب بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلی جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد باپ  میں اختلافات پیدا ہوگئے تو انہوں نے صادق سنجرانی اور عبدالقدوس بزنجو کی بجائے جام کمال کا ساتھ دیا تھا۔

Pakistan Islamabad Senat
انوار الحق سینیٹ کے رکن کے طور پر بھی فعال کردار ادا کرتے آئے ہیںتصویر: Imago/Xinhua

کہا جاتا ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں میں سینیٹر انوار الحق کاکڑ پاکستان مسلم لیگ نون کے قریب آگئے تھے۔ ان کی سابق وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال کے ساتھ  مسلم لیگ ن میں شمولیت کی خبریں بھی آ رہی تھیں ۔ رواں سال جون میں ان دونوں رہنماوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف سے ملاقات بھی کی تھی۔سیاسی مبصرین کے مطابق اس سب کے باوجود وہ نگران وزیر اعظم کے لئے نون لیگ کا انتخاب نہیں تھے۔ نواز شریف آخری وقت تک اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنوانے کی کوشش کرتے رہے۔

سینٹ میں کارکردگی

انوار الحق کاکڑ  ایک ایسے وقت میں پاکستان کے نگران وزیراعظم نامزد ہوئے ہیں جب ان کی سینٹ کی رکنیت ختم ہونے میں صرف چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں۔ وہ مارچ 2018 میں آزاد حیثیت سے چھ سال کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ اور وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے چئیرمین  تھے۔

انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائل کی ترقی کے چیئرپرسن اور بزنس ایڈوائزری کمیٹی، فنانس اینڈ ریونیو، خارجہ امور اور سائنس و ٹیکنالوجی کے رکن کے طور پر بھی کام کیا ہے۔سینیٹر انوار الحق کاکڑ بطور سینیٹر امریکا، برطانیہ، روس، آسڑیلیا سمیت پورپ کے مختلف ممالک کادورہ کرچکے ہیں۔

سینٹر انوار الحق کاکڑ کے قریبی دوست اور پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما سینٹر رانا مقبول احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کہ انہوں نے ہمیشہ سینٹ کی کارروائی میں ذمہ داری سے حصہ لیا ہے۔ وہ سینٹ کی  مختلف کمیٹیوں میں بھی کافی سرگرمی سے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ وہ ایک متواز ن شخصیت  کے حامل ایسے سینٹر تھے جو اپنی بات عمدگی سے کہنے کا سلیقہ جانتے تھے۔  ان کا سارے کولیگز کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔'' ان کا علمی اور ادبی پس منظر اور ان کی مطالعے سے دلچسپی ہی ہماری دوستی کا ذریعہ بنی‘‘

انوار الحق کے لئے چیلنجز کیا ہوں گے؟

بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انوارالحق کاکڑ ایک ایسے وقت میں ملک کے نگران وزیر اعظم بنے ہیں، جب ملک کو شدید معاشی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے۔

 تجزیہ کار حبیب اکرم کے بقول کاکڑ غیر روایتی سوچ کے حامل ہیں اور معاملات کو زمینی حقائق کی روشنی میں درست تناظر میں ہی دیکھنے کے عادی ہیں اور ان کے پاس دو انتہاوں کے درمیان مشترکہ نکات تلاش کرلینے کی بھی صلاحیت ہے اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کریں گے اور ماضی سے نکل کر مستقبل کی طرف سفر شروع کرسکیں گے۔ 

پاکستان سائفر تنازعہ: ’گفتگو کو غلط سمجھا گیا‘