انتقال اقتدار کے معاہدے کے بعد بھی یمن مسائل کی لپیٹ میں
25 نومبر 2011یمن میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری مظاہروں اور خونریزی کے باعث ملک کا اقتصادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ شدید نوعیت کے مسلسل بین الاقوامی دباؤ کے بعد یمن کے صدر علی عبداللہ صالح نے خلیجی تعاون کی کونسل کی جانب سے پیش کردہ اقتدار کی منتقلی کے فارمولے کو تسلیم کر لیا اور اس حوالے سے ایک باقاعدہ معاہدے پر دستخط بھی کر دیے۔
اس معاہدے کے تحت اگلے 90 روز میں انتہائی غربت کے شکار یمن میں عام انتخابات کرائے جائیں گے۔ الیکشن کے بعد حکومتی معاملات دو سال تک ایک عبوری حکومت دیکھے گی۔ معاہدے کے مطابق علی عبداللہ صالح کو اپنے خلاف عدالتی کارروائی اور احتسابی عمل سے استثنیٰ حاصل ہو گا تاہم عام انتخابات کے انعقاد تک نائب صدر عبدالرب منصور ہادی قائم مقام ریاستی سربراہ کے فرائض انجام دیں گے۔ اس معاہدے پر دستخطوں کے بعد ملکی دارالحکومت صنعاء میں ہزاروں مظاہرین نے صالح کے لیے متنازعہ مامونیت کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کیا اور ایسے نعرے بھی لگائے جاتے رہے کہ عبداللہ صالح کو موت کی سزا دی جائے۔
الاقوامی سطح پر اس معاہدے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اس تصفیے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے یمنی عوام کو امریکہ کے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی صدر صالح کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل آئندہ پیر کے روز اپنے ایک اجلاس میں یمن کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لے گی۔
مبصرین کے مطابق یمن میں صدر صالح کے خلاف رواں برس جنوری میں عوامی مظاہرے شروع ہونے کے بعد کئی شدت پسند گروپوں نے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے جنوبی صوبوں میں خود کو کافی حد تک مضبوط بنا لیا تھا۔ امریکی حکومت بھی اس صورتحال پر کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔ واشنگٹن کے مطابق صدر صالح کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد ایک سیاسی خلاء پیدا ہو سکتا ہے، جس سے انتہا پسند عناصر کو ممکنہ طور پر فائدہ پہنچے گا۔
عرب دنیا کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے ناقدین کے مطابق بھی صدر صالح کے جانے کے بعد حصول اقتدار کی کوششوں میں مذہبی جماعتیں بھی شامل ہو جائیں گی اور یوں صنعاء میں اقتدار کے لیے رسہ کشی یقینی طور پر طویل اور شدید تر بھی ہو سکتی ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: مقبول ملک