1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امی جی اور یوم آزادی

10 اگست 2021

ہر سال جب 14 اگست قریب آتا ہے اور پاکستان میں ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرانے لگتے ہیں تو مجھے میری ماں ضرور یاد آتی ہیں، جنہیں میں امی جی کہا کرتا تھا۔ امی جی کا یوم آزادی سے بڑا گہرا تعلق تھا۔

https://p.dw.com/p/3yn1L
Pakistan Journalist Hamid Mir
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

وہ یوم آزادی سے کچھ دن پہلے ہمیں بازار سے کاغذی پرچم لا کر دیتیں اور ہم اپنے گھر کے درو دیوار کو ان کاغذی پرچموں سے سجایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ 14 اگست پر شدید بارش اور طوفان میں ہمارے سب کاغذی پرچم اڑ گئے تو مجھے بڑا افسوس ہوا۔

اس دن امی جی نے بڑے پیار سے مجھے دلاسہ دیا اور کہا کہ کوئی بات نہیں بارش اور طوفان تو آتے رہتے ہیں لیکن یہ آزادی قائم رکھنی ہے، یہ بڑی مشکل سے ہمیں ملی ہے۔ میں نے امی جی سے پوچھا کہ یہ آزادی کہاں سے ملی ہے اور کون سی مشکل تھی؟ اس دن امی جی نے آہسہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر 1947ء  میں جموں سے سیالکوٹ کی طرف ہجرت کی دردناک داستان سنائی، جس میں ان کی والدہ اور ایک بھائی ان کی آنکھوں کے سامنے اغوا ہو گئے۔ امی جی نے اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو نیچے چھپ کر جان بچائی اور دو چھوٹی بہنوں کو لے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ گئیں۔ پاکستان پہنچ کر وہ تادم مرگ اپنی لاپتہ ماں اور لاپتہ بھائی کو تلاش کرتی رہیں۔

میرے لیے میری امی جی پاکستان تھیں اور کافی عرصہ تک میں یہ سمجھتا رہا کہ یوم آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اس دن میری امی جی میری دو خالاؤں کے ساتھ بھاگ کر پاکستان آ گئی تھیں۔ وہ بھاگنے میں کامیاب نہ ہوتیں تو کہیں ماری جاتیں۔ امی جی کی گود میں میں نے یوم آزادی کا مطلب سمجھنا شروع کیا اور اسی گود میں مجھے لاپتا افراد کا دکھ بھی ملا۔ امی جی یوم آزادی پر شکرانے کے نفل ادا کرتی تھیں اور غریبوں کو کھانا کھلاتی تھیں۔ آج کل یوم آزادی پر نغمے گائے جاتے ہیں اور پٹاخے چلائے جاتے ہیں۔

مجھے نغمے گانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن پٹاخوں کی آوازیں سن کر مجھے میرے دادا جی یاد آجاتے ہیں۔

وہ اردو، فارسی اور پنچابی کے شاعر تھے اور پٹاخوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران وہ اصغر سودائی کے ہم راہ مختلف جلسے جلوسوں میں نظمیں پڑھا کرتے تھے۔ وہ کبھی کبھی شب برات کے پٹاخوں پر اتنا ضرور کہتے تھے کہ ہم نے پاکستان پٹاخے چلانے کے لیے تو نہیں بنایا تھا۔

اس سال چودہ اگست سے کافی دن پہلے ٹی وی چینلز پر قومی نغمے گونج رہے ہیں اور بڑے شہروں میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ میں آج بھی چودہ اگست کو اپنی امی جی کا یوم آزادی سمجھتا ہوں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اس یوم آزادی پر میں بار بار سوچ رہا ہوں کہ میری امی جی اگر زندہ ہوتیں تو آج کے پاکستان پر کیا تبصرہ کرتیں؟ میرے دادا جی اگر زندہ ہوتے تو آج کے پاکستان میں پٹاخوں کی بھرمار پر کیا کہتے؟ میرے والد کے خاندان کا تحریک پاکستان میں اہم کردار تھا اور میری والدہ کے خاندان کا تحریک آزادی کشمیر میں اہم کردار تھا۔

دونوں خاندان سیاسی شعور سے مالا مال تھے۔ اسی سیاسی شعور نے مجھے یہ حوصلہ دیا کہ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاؤں، صحافت کی آزادی کے دشمنوں کو للکاروں اور غیرقانونی حراستوں میں جکڑے لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ کروں۔

میں نے اپنی امی جی سے یہی سیکھا کہ بارش اور طوفان سے گھبرانا نہیں۔ بس اپنی آزادی کو قائم رکھنا ہے۔

فرد کی آزادی سے ہی افراد کی آزادی بنتی ہے اور افراد کی آزادی پوری قوم کی آزادی بن جاتی ہے۔ یوم آزادی صرف نغمے گانے اور پٹاخے چلانے کا نام نہیں بلکہ آزادی کے اس تصور پر غور کا دن بھی ہے، جو تصور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے میرے داد کو دیا اور وہ شہر شہر گاؤں گاؤں اپنی نظموں کے ذریعے قائد اعظم کا پیغام پھیلایا کرتے۔ وہ قائد اعظم کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح انسانی حقوق اور آزادی صحافت کے بڑے علم برداروں میں سے ایک تھے۔ قائد اعظم نے بہ طور وکیل بہت سے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کا بغاوت کے مقدمات میں دفاع کیا۔

13 مارچ 1947ء کو انہوں نے صحافیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے توقع کرتا ہوں کہ آپ کبھی خوف کا شکار نہیں ہوں گے۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے یا مسلم لیگ کہیں غلطی کر جائے تو میں چاہوں گا کہ آپ بڑی ایمان داری سے دوست کی طرح ہم پر تنقید کریں۔

وہ قائد اعظم، جو بذات خود صحافیوں کو اپنے آپ پر تنقیید کی دعوت دیا کرتے تھے، جب پاکستان کے گورنر جنرل بنے تو انہیں پبلک سیفٹی آرڈیننس پر دستخط کے لیے کہا گیا، جس کے تحت امن عامہ میں خلل اندازی کے خدشات پر کسی بھی فرد کو گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ قائد اعظم نے اس آرڈیننس پر دستخط سے انکار کر دیا۔

گیارہ ستمبر 1948ء کو ان کی وفات کے چند ہفتوں بعد پانچوں صوبائی حکومتوں نے پبلک سیفٹی آرڈیننس جاری کر دیے اور 1952ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی نے سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے نام سے پبلک سیفٹی ایکٹ کو قانون بنا دیا۔

1958ء میں جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لا لگایا اور پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کے ذریعے صحافت پر پابندیاں لگا دیں۔ آج بظاہر پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن صحافت پابندیوں اور غیر اعلانیہ سینسرشپ کا شکار ہے۔ ہزاروں افراد لاپتا ہیں اور غیرمسلم پاکستانی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

ذرا سوچیے کہ جس قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ ریاست پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آج اس قائد اعظم کے پاکستان میں مندروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ بانی پاکستان نے 14 جون 1948ء کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنے حلف کا اہمیت کا احساس دلایا۔ کیا آج کا صدر، وزیر اعظم یا وزیر دفاع فوجی افسروں کو ان کے حلف کی اہمیت کا احساس دلانے کی ہمت کر سکتا ہے۔

وہ حلف، جو افواج پاکستان کو سیاست میں مداخلت سے روکتا ہے، اس حلف کی بات کرنا آج جرم کیوں ہے؟ اس یوم آزادی پر اپنے آپ سے یہ ضرور پوچھیں کہ آپ کتنے آزاد ہیں؟ میں اپنی بات نہیں کروں گا کیوں کہ میں تو آج کل پابندیوں کا شکار ہوں۔ پابندیوں کی وجہ امی جی ہیں، جنہوں نے کہا کہ ہمیشہ سچ بولنا اور آزادی کی حفاظت کرنا۔