1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیشمالی امریکہ

امریکہ: نائن الیون کے 'حملہ آوروں' کے ساتھ معاہدہ کیا ہے؟

1 اگست 2024

تین مشتبہ افراد، جن پر 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملوں کا الزام کیا گیا، وہ مبینہ طور پر اعتراف جرم کے لیے راضی ہو گئے ہیں۔ تینوں گوانتانامو بے میں واقع امریکی قید خانے میں بغیر کسی مقدمے کے برسوں سے قید میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/4iz5E
مشتبہ افراد کے عدالت میں پیشی کا خاکہ
خالد شیخ محمد اور اس کیس کے چار دیگر ملزم سزائے موت کے لیے مقدمے کی سماعت سے قبل عدالت میں پیش ہوئے تھےتصویر: Janet Hamlin/AP Photo/picture alliance

امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کا کہنا ہے کہ نیویارک میں 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کی مبینہ طور پر منصوبہ بندی کرنے والے تین افراد کے ساتھ مقدمے کی سماعت سے قبل ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ان میں حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد شامل ہیں۔

اسامہ بن لادن کے خط کی اشاعت پر امریکہ ناراض کیوں؟

اطلاعات کے مطابق اس معاہدے کے تحت تینوں ملزم اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیں گے اور بدلے میں استغاثہ عدالت میں ان کی موت کی سزا کا مطالبہ نہیں کرے گا۔

پاکستان سے گرفتار شدہ گوانتانامو کا قیدی سعودی عرب منتقل

 پنٹاگون نے ایک بیان میں کہا کہ ''قبل از سماعت معاہدوں کی مخصوص شرائط و ضوابط فی الوقت عوام کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔''  تاہم نیویارک ٹائمز نے اطلاع دی ہے کہ تینوں نے عمر قید کی سزا کے بدلے میں اپنا جرم قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

نائن الیون کے متاثرین کے لواحقین افغان بینک کی رقوم کے حقدار نہیں، امریکی جج

تینوں مشتبہ افراد کے نام خالد شیخ محمد، ولید محمد صالح مبارک بن عطاش اور مصطفی احمد آدم الحوساوی ہے، جو کیوبا کی گوانتانامو بے میں واقع امریکی بحریہ کے اڈے پر برسوں سے بغیر کسی مقدمے کی سماعت کے قید میں ہیں۔

خالد شیخ محمد کے خلاف کیس کیا ہے؟

خالد شیخ محمد اور اس کیس کے چار دیگر ملزم سزائے موت کے لیے مقدمے کی سماعت سے قبل عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

نائن الیون کی برسی: دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم

مدعا علیہان پر 11 ستمبر 2001 کو نیویارک شہر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر، پنٹاگون اور پنسلوینیا کے شینکسویل کے ایک میدان میں حملہ اور سازش کرنے سمیت دہشت گردی اور 2,976 افراد کے قتل کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری امریکی ڈرون حملے میں ہلاک

دفاعی وکلا کا استدلال تھا کہ سن 2007 میں ایف بی آئی کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کو اس بنیاد پر ناقابل قبول قرار دیا جانا چاہے کہ مدعا علیہان کو حراست میں تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

خالد شیخ محمد
56 سالہ خالد پاکستانی شہری ہیں سن 1993 میں بھی انہوں نے ہی اپنے بھتیجے کے ساتھ مل کر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نیچے پارکنگ گیراج میں کار بم دھماکہ کرنے کی سازش کی تھیتصویر: Pentagon/ZUMA/picture alliance

پنٹاگون نے اعتراف جرم کا معاہدہ ولید بن عطاش اور مصطفیٰ الحوساوی کے ساتھ بھی کیا ہے۔ بن عطاش پر حملوں کی منصوبہ بندی میں محمد کی مدد کرنے اور ہائی جیکروں کو رقم بھیجنے کا الزام ہے۔ مصطفیٰ الحوساوی نے مبینہ طور پر ہائی جیکروں کی مدد کی اور رقم کی منتقلی کا کام سنبھالا تھا۔

ٹوئن ٹاور پر حملہ

گیارہ کے ستمبر کے روز ایک ہی ساتھ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر، ورجینیا اور پنسلوینیا میں تقریباً 3000 افراد القاعدہ کے ان حملوں میں مارے گئے تھے۔ اسی حملے کے بعد امریکہ نے ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کا اعلان کیا اور افغانستان اور عراق پر حملوں کو آغاز کیا۔

پاک امریکہ تعلقات میں مزید تلخی کا امکان

یہ حملہ سن 1941 میں پرل ہاربر اور ہوائی پر ہونے والے جاپانی حملے کے بعد سے امریکی سرزمین پر سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ جاپانی حملے میں 2400 لوگ مارے گئے تھے۔

زندہ بچ جانے والے اور متاثرہ افراد کے اہل خانہ کا رد عمل؟

نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس معاہدے کا انکشاف سب سے پہلے پراسیکیوٹرز کی جانب سے متاثرین کے اہل خانہ کو بھیجے گئے ایک مکتوب سے ہوا۔

گوانتانامو بے جیل کا آنکھوں دیکھا حال

چیف پراسیکیوٹر ریئر ایڈمرل آرون رف کی جانب سے بھیجے گئے اس خط میں کہا گیا ہے کہ ''ممکنہ سزا کے طور پر سزائے موت کو ہٹانے کے بدلے میں، ان تینوں ملزمان نے چارج شیٹ میں درج 2,976 افراد کے قتل سمیت تمام الزامات کا اعتراف کرنے پر اتفاق کیا ہے۔''

صدر بائیڈن گوانتانامو بے جیل بند کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں، ایمنسٹی انٹرنیشنل

گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں میں زندہ بچ جانے والوں اور متاثرہ افراد کے اہل خانہ سے متعلق ایک تنظیم 9/11 فیملیز یونائیٹڈ آرگنائزیشن کی قومی سربراہ ٹیری اسٹراڈا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے گروپ کے ارکان مبینہ طور پر اعتراف جرم کے اس معاہدے سے ناراض ہیں۔ وہ اس بات سے بھی نالاں ہیں کہ ملزمان کا مقدمہ کھلے طور پر نہیں چلایا جا رہا ہے۔

القاعدہ کے رکن ابوزبیدہ پر تشدد سے متعلق امریکی سپریم کورٹ میں سماعت

انہوں نے کہا، ''جن سے میں بات کر رہی ہوں، ان کے خاندان کے ارکان کی اکثریت بہت غصے میں ہے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے آج کیوبا میں انصاف سے انکار کر دیا گیا ہو۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب محمد کو ''مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور پہلے جو موت کی سزا کی تجویز تھی، اس سے وہ بچ جائیں گے۔''

اسٹراڈا نے اس مبینہ معاہدے کو مدعا علیہان کے لیے ''فتح'' قرار دیا۔ انہوں نے کہا: ''یہ لوگ کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ سزائے موت صحیح سزا تھی، اور جیسا کہ میں نے کہا، یہ ہم سے چھین لیا گیا ہے۔''

خالد شیخ محمد کون ہیں؟

خالد شیخ محمد11 ستمبر کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کے طور پر سب سے زیادہ بدنام رہے ہیں۔

56 سالہ خالد پاکستانی شہری ہیں، جن کی پرورش کویت میں ہوئی تھی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو میزائل کے طور پر عمارتوں سے ٹکرانے کے لیے کمرشل ایئر لائنز کا منصوبہ پیش کیا تھا۔

سن 1993 میں بھی انہوں نے ہی اپنے بھتیجے کے ساتھ مل کر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نیچے پارکنگ گیراج میں کار بم دھماکہ کرنے کی سازش کی تھی۔

خالد محمد کو سن 2003 میں پاکستان میں پکڑا گیا تھا اور پھر سن انہیں 2006 میں گوانتاناموبے منتقل کرنے سے پہلے افغانستان میں سی آئی اے کے زیر انتظام خفیہ جیلوں میں لے جایا گیا تھا۔

سن 2007 میں قید کے دوران بند کمرے کی سماعت میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ 9/11 اور بالی اور کینیا میں القاعدہ کے بم دھماکوں سمیت متعدد حملوں کے ذمہ دار ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)