1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Ismat Jabeen

عصمت جبیں22 جولائی 2008

سابق نائب امریکی صدر ایل گور نے دنیا پر عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے منفی اثرات کے پیش نظر دَس برسوں کے اندر اندر معدنی توانائیوں کی جگہ مکمل طور پر شمسی اور دیگر قابلِ تجدید توانائیاں اپنانے پر زور دیا یے۔

https://p.dw.com/p/Ef0k
ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والےسابق نائب امریکی صدر ایل گورتصویر: AP

امریکہ دُنیا میں ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والا سب بے بڑا ملک ہے۔ ماحولیات کے لیے مہم چلانے والے نوبیل امن انعام یافتہ سابق نائب امریکی صدر ایل گور نے حال ہی میں واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب ہزارہا افراد سے بھرے ہوئے ایک کانفرنس ہال میں میں امریکی شہریوں پر زور دیا کہ وہ توانائی کے معدنی ذخائر کی جگہ مکمل طور پر قابلِ تجدید توانائیوں کو فروغ دیں۔

’’میں امریکی قوم کو یہ چیلنج دیتا ہوں کہ آئیے ہم دَس برسوں کے اندر اپنی بجلی ایک سو فیصدی قابلِ تجدید توانائیوں اور حقیقی طور پر کاربن گیسوں سے پاک ذرائع سے حاصل کریں۔‘‘

Solarautos
شمسی توانائی سے چلنے والی یہ کاریں امریکہ میں تیار کی گئی ہیں اور 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہیں۔تصویر: AP

انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب پہلی بار1961ء میں جان ایف کینیڈی نے امریکی قوم کو دَس برسوں کے اندر اندر چاند پر اترنے اور خیریت کے ساتھ زمین پر واپس پہنچنے کا چیلینج دیا تھا تو اُس وقت بھی لوگ اِسے دیوانے کا خواب کہتے تھے مگر پھر نہ صرف یہ خواب حقیقت بنا بلکہ امریکہ نے آسمانوں کو تسخیر کر کے دکھایا۔

ایل گور کے خیال میں دس سال میں شمسی اور دیگر قابلِ تجدید توانائیوں کے ذریعے بجلی پیدا کر کے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے ماحول کو بچایا جا سکتا ہے۔ اِس طرح نہ صرف فضا میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج کم ہو گا بلکہ تیل اور دیگر معدنی توانائیوں پر انحصار بھی کم ہو گا۔ سن دو ہزار پانچ میں امریکہ نے اپنی آدھی بجلی کوئلہ جلا کر حاصل کی تھی۔ ایل گور نے زور دے کر کہا:

’’ہم جانتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بقا ہی نہیں بلکہ پوری انسانی تہذیب کا مستقبل خطرے میں ہے۔‘‘

ایل گور برسوں سے ماحولیات کے تحفظ کے لئے مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُنہیں دنیا کا پہلا ماحولیاتی سائنسدان بھی کہا گیا۔ انہوں نے اس موضوع پر ’’ناخوشگوار سچ‘‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی، جسے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ اِنہی کاوشوں کی بنا پر انہیں گذَشتہ برس امن کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔