امریکہ غیر مشروط معافی مانگے، پارلیمانی کمیٹی
20 مارچ 2012منگل کو چیئرمین سینیٹ کی زیرصدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس 16 رکنی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے پانچ صفحات پر مشتمل 40 نکاتی سفارشات پیش کیں۔ ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت ملکی آئین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل کو یقینی بنائے۔ اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ریاستی حدود میں ڈرون حملوں کا خاتمہ کیا جائے اور دہشت گردوں کے تعاقب کی آ ڑ میں پاکستانی علاقے میں داخل نہ ہوا جائے۔ غیر ملکی نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز کی سرگرمیاں شفاف اور پاکستانی قانون کے مطابق ہونی چاہیئں۔
ان سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ڈرون حملے نقصان دہ ہیں اور ان سے مقامی آبادی کا قیمتی جان و مال ضائع ہو رہا ہے جس سے لوگوں میں امریکہ مخالف جذبات اور دہشت گردوں کے لیے حمایت پیدا ہو رہی ہے۔
سینیٹر رضا ربانی نے یہ سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں پارلیمان کی بالادستی قائم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو بھی پاکستان کی مشکلات کو سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ‘بین الاقوامی برادری کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بڑے جانی اور مالی نقصانات اور مسلسل جاری مشکلات کو تسلیم کرنا چاہیے اور کم از کم پاکستانی برآمدات کو امریکہ اور نیٹو ممالک کی منڈیوں تک رسائی دی جانی چاہیے۔
پارلیمان میں پیش کردہ حکومت کے لیے ان سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام اور اثاثوں کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی بھارتی سول جوہری معاہدے سے خطے میں دفاعی توازن بگڑا ہے، اس لیے پاکستان امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ اس طرح کے معاہدے کے حوالے سے بات کرے۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد کی روک تھام کے لیے معاہدے کے حوالے سے بھارت کے بارے میں پاکستان کا جو مؤقف ہے، اس پر سمجھوتہ کیے بغیر امریکہ سے بات چیت کی جائے۔
ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی افواج کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود یا اڈوں کے استعمال کی اجازت پارلیمنٹ سے لینا ہوگی۔
نیٹو کے سامان رسد کے حوالے سے ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ نیٹو سپلائی کے پچاس فیصد کنٹینرز پاکستان ریلوے کے ذریعے بھجوائے جائیں۔ پاکستان میں سامان کی آمد اور روانگی پر ٹیکس اور چارجز عائد کیے جائیں اور ان چیزوں کی وجہ سے پاکستان میں مواصلاتی ڈھانچے کو جو نقصان پہنچا ہے، اس مد میں بھی معاوضہ لیا جائے۔
اس پارلیمانی کمیٹی نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ رسد کے معاہدے پر نظرثانی کرے اور نئے معاہدے میں رسد معطل کرنے کی شرط رکھی جائے۔ فوجی تعاون اور دیگر معاہدوں کے بارے میں معلومات وزارت خارجہ اور دیگر متعلقہ محکموں کو ان کی رائے کے لیے بھجوائی جائیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے کمیٹی کی متعدد سفارشات پر اعتراض کرتے ہوئے اس بارے میں اپنا ردعمل دینے کے لیے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ قومی اسمبلی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اس پارلیمان کی متفقہ قراردادوں کو امریکہ ردی کی ٹوکری میں پھینک چکا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ مزید ایسی قراردادوں پر مہر لگائیں، جنہیں پھینک دیا جائے۔
حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا، ’قرارداد میں پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کے اچھے الفاظ کے پیچھے چھپا ہوا جو پیغام ہے، وہ خطرناک ہی نہیں بلکہ تشویشناک اور خوفناک بھی ہے۔ اگر اس قرارداد پر عمل ہوا تو کل ہر غلط کام پارلیمان کے ذمے ڈالا جائے گا۔ ہم پاکستان کے مفادات کا اس طرح سودا نہیں کر سکتے۔‘
دریں اثناء پارلیمان کا مشترکہ اجلاس 26 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں