1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمشمالی امریکہ

امریکہ: ایران سے روابط کا الزام، پاکستانی شہری کا انکار

17 ستمبر 2024

امریکی حکام کی جانب سے آصف رضا مرچنٹ پر ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے ایک امریکی اہلکار کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4kiJg
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈتصویر: Evan Vucci/AP Photo/picture alliance

امریکہ میں  ایرانی حکومت کے ساتھ  مبینہ روابط کے مقدمے میں گرفتار ایک پاکستانی شہری آصف رضا مرچنٹ نے ان الزامات سے انکار کیا ہے کہ وہ امریکی فوج کی جانب سے ہلاک کیے گئے ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کی خاطر ایک امریکی اہلکار کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

امریکی محکمہ انصاف اور دفتر استغاثہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 46 سالہ آصف رضا مرچنٹ پر الزام ہے کہ وہ کسی امریکی سیاستدان یا سرکاری اہلکار کو ہلاک کرنے کے لیے کرائے کے قاتل کی تلاش میں تھے۔ ایک عدالتی دستاویز کے مطابق مرچنٹ نے اس ضمن میں خود پر لگائے گئے تمام الزامات ماننے سے انکار کر دیا ہے جبکہ اس کیس کی اگلی سماعت رواں برس چھ نومبر کو ہو گی۔

قاسم سلیمانی کو جنوری 2020ء میں بغداد کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا
قاسم سلیمانی کو جنوری 2020ء میں بغداد کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھاتصویر: Office of the Iranian Supreme Leaderpicture alliance/AP/picture alliance

قاسم سلیمانی ایران کی بیرون ملک جاری عسکری کارروائیوں کے سربراہ تھے۔ انہیں جنوری 2020ء میں بغداد کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تہران حکومت متعدد مرتبہ اس ہلاکت کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کر چکی ہے۔

امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ پہلے کہہ چکے ہیں، ''آصف مرچنٹ کے خلاف دہشت گردی اور کرائے کے قاتل کی تلاش جیسے الزامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کا احتساب کرتے رہیں گے جنہوں نے ایران کی امریکیوں کے خلاف یہ ہلاکت خیز سازش تیار کی تھی۔‘‘

ابھی تک یہ تو نہیں پتا چل سکا کہ کس امریکی کو قتل کرنے کی سازش تیار کی گئی تھی تاہم گارلینڈ نے کچھ عرصے قبل کہا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، جن کی بنیاد  پر یہ کہا جا سکے کہ مرچنٹ کا 13 جولائی کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے سے کوئی تعلق ہے۔

امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے بتایا تھا کہ آصف مرچنٹ کے ایران کے ساتھ قریبی روابط تھے اور کسی امریکی کو قتل کرنے کی سازش ایران میں تیار کی گئی تھی۔ ایف بی آئی کے ایک اور اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ مرچنٹ نے مبینہ طور پر جس کرائے کے  قاتل سے رابطہ کیا تھا وہ ایف بی آئی کا ہی ایک ایجنٹ تھا۔

امریکی محکمہ انصاف کے ایک بیان کے مطابق ایران میں کچھ وقت گزارنے کے بعد آصف مرچنٹ پاکستان کے راستے امریکہ پہنچے تھے
امریکی محکمہ انصاف کے ایک بیان کے مطابق ایران میں کچھ وقت گزارنے کے بعد آصف مرچنٹ پاکستان کے راستے امریکہ پہنچے تھےتصویر: Mark Lennihan/AP/picture alliance

امریکی محکمہ انصاف کے ایک بیان کے مطابق ایران میں کچھ وقت گزارنے کے بعد آصف مرچنٹ پاکستان کے راستے امریکہ پہنچے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک شخص سے رابطہ کیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ یہ شخص کسی سیاستدان یا کسی سرکاری اہلکار کو قتل کرنے کے منصوبے میں ان کی مدد کرے گا، ''تاہم اس شخص نے مرچنٹ کے منصوبوں کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کیا اور اس  کیس کا ایک اہم گواہ بن گیا۔‘‘

مرچنٹ کو 12 جولائی کو اس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ امریکہ چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے اگست میں کہا تھا کہ اسے امریکی حکومت سے اس بارے میں کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔ اپنے ایک بیان میں ایرانی مشن کا کہنا تھا، ''لیکن یہ واضح ہے کہ یہ طریقہ ایرانی حکومت کی سلیمانی کے قاتل کا تعاقب کرنے کی پالیسی کے خلاف ہے۔‘‘

ش ر/اب ا (اے ایف پی)

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟