1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

امریکہ: اسقاط حمل کے قانونی پہلوؤں پر ’شدید‘ ابہام

2 جولائی 2022

مخلتف امریکی ریاستوں میں اسقاط حمل کی خدمات مہیا کرنے والے افراد اور اداروں نے فوجداری مقدمات کے ڈر سے اپنا کام عارضی طور پر روک رکھا ہے۔ مبصرین کے مطابق اسقاط حمل کے مریضوں کےلیے مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4DYzt
 BG USA Nach dem Urteil des Oberste Gerichtshofs zum Abtreibungsrecht | Proteste in Washington
تصویر: Evelyn Hockstein/REUTERS

امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے ملک میں اسقاط حمل کا آئینی حق ختم کیے جانے کے حالیہ فیصلے کے بعد سے مختلف ریاستوں میں اسقاط حمل کی خدمات مہیا کرنے والوں اور مریضوں کے لیے قانونی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

امریکی ریاست ٹیکساس کی سپریم کورٹ نےایک ماتحت عدالت کے  اس حکم پر عملدرآمد روک دیا جس میں کہا گیا تھا کہ کلینک اسقاط حمل جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب ریاست ٹیکساس میں بعض ڈاکٹروں نے اسقاط حمل کے مریضوں کے معائنے چند روز قبل ہی بحال کیے تھے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ٹیکساس کے ایسے کلینک جہاں پر مریضوں کا معائنہ بحال کیا گیا تھا،کیا وہ اپنی خدمات دوبارہ روک دیں گے۔  اس مقدمے کی مزید سماعت اس مہینے کے آخر میں مقرر کی گئی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران ٹیکساس میں کلینک کی طرف سے اسقاط حمل کے مریضوں کو زبردستی واپس بجھوانے، ان کے معائنے کی تاریخوں میں تبدیلی اور اب ممکنہ طور پر ان کے معائنے کی منسوخی اُس پریشانی اور الجھن کا اظہار ہے، جو  'رو بنام ویڈ‘ کے مقدمے کو کالعدم قرار دینے کے امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں پائی جاتی ہے۔

امریکی عدالت کا اسقاط حمل کے عام طریقے پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ

 1973 میں 'رو بنام ویڈ‘ کے نام سے معروف مقدمے میں سپریم کورٹ نے  یہ فیصلہ سنایا تھا کہ امریکی آئین کے تحت خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔ تاہم اسی عدالت نےچوبیس جون بروز جمعہ اپنا یہ فیصلہ منسوخ کر دیاتھا۔

اس ہفتے کے آغاز پر ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کے ایک جج کے حکم نے کچھ کلینکس کو یقین دلایا تھا کہ وہ عارضی طور پر چھ ہفتوں تک اسقاط حمل کا سلسلہ دوبارہ شروع کرسکتے ہیں۔

اس کے فوری بعد ٹیکساس کے اٹارنی جنرل کین پاکسٹن نے ریاست کی  اعلیٰ عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اس جج کے حکم کے خلاف عارضی حکم امتناعی جاری کرے۔ ٹیکساس سپریم کورٹ میں قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کے دور میں لگائے گئے ججوں کی تعداد نو ہے۔

USA | Proteste gegen Änderung Abtreibungsgesetz
تصویر: Michael Brochstein/ZUMAPRESS/picture alliance

مبہم قوانین

تولیدی صحت کے حقوق کی ایک تنظیم سے وابستہ وکیل مارک ہیئرن نے جمعے کی رات ٹیکساس سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کیے گئے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''یہ قوانین الجھے ہوئے، غیر ضروری اور ظالمانہ ہیں۔‘‘

 تقریباﹰ 30 ملین آبادی پر مسشتمل  ریاست ٹیکساس میں کلینکس نےگزشتہ ہفتے امریکی سپریم کورٹ کے 'رو بنام ویڈ‘ مقدمے میں اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کرنے کے فیصلے کے بعد اسقاط حمل کرنا بند کر دیا تھا۔ ملک بھر میں اسقاط حمل کی خدمات مہیا کرنے والے اور مریض اسقاط حمل کے ارتقائی قوانین سے نمٹنے کے لیےکوششیں کر رہے ہیں۔

ریاست فلوریڈا میں 15 ہفتوں کے بعد اسقاط حمل پر پابندی کا قانون جمعے کے روز سے نافذ العمل کر دیا گیا ہے۔  اس قانون کا نفاذ ایک جج کے اس بیان کے ایک دن بعد عمل میں آیا ہے، جس میں اس قانون کو ریاستی آئین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔ اس جج کا کہنا تھا  کہ وہ  اس قانون کا نفاذ رکونے کے لیے اگلے ہفتے ایک عارضی  حکم نامے پر دستخط کریں گے۔ اس قانون کے جنوبی امریکہ کے لیے وسیع مضمرات ہو سکتے ہیں، جہاں ریاست  فلوریڈا کو اپنی پڑوسی ریاستوں کے مقابلے میں اسقاط حمل کے طریقہ کار تک وسیع رسائی حاصل ہے۔

اسقاط حمل: امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عالمی رہنماؤں کی کڑی تنقید

فوجداری کارروائی کا خوف

ریاست کینٹکی میں چند دنوں کے دوران اسقاط حمل کے حقوق کھوئے اور دوبارہ حاصل کر لیے گئے۔ اس ریاست میں 'ٹریگر لا ء‘ نامی قانون کے تحت  24 جون جمعے کے روز سےاسقاط حمل پر  تقریباﹰ مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تاہم پھر ایک جج نے گزشتہ جمعرات کو اس قانون پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں فی الحال ریاست میں اسقاط حمل کی خدمات مہیا کرنیوالے دو ادارے مریض دیکھ سکتے ہیں۔

ان قانونی موشگافیوں کی موجودگی میں مستقبل قریب میں اسقاط حمل کے خواہاں امریکیوں کے لیے پریشان کن صورتحال کا جاری رہنا یقنی ہے۔ موجودہ صورتحال  میں کسی بھی ریاست میں اسقاط حمل کی خدمات  انجام دینے والوں پر باہر کی ریاستوں سے آنے والے نئے مریضوں کا بوجھ بڑھ سکتا ہے جبکہ عدالتی فیصلہ کسی بھی وقت   ان ریاستوں میں اسقاط حمل تک رسائی کو  بھی ختم کر سکتا ہے۔ 

یہاں تک کہ اگر خواتین مریض ان ریاستوں سے باہر بھی سفر کریں جہاں اسقاط حمل پر پابندی ہے، اُن کے پاس پھر بھی اپنا حمل ختم کرنے کے چند ہی راستے ہیں کیونکہ قانونی چارہ جوئی کا امکان ان کا پیچھا کرتا ہے۔

Abortion Pill I Medikamentöse Abtreibung
تصویر: Phil Walter/Getty Images

ادویات کے ذریعے اسقاط حمل پر پابندی

تولیدی صحت کے شعبے میں خدمات سر انجام دینے والی غیر سرکاری تنظیم  'پلانڈ پیرنٹ ہوڈ‘ نے ریاست مونٹانا  میں اس ہفتے اُن ریاستوں کے مریضوں کو دوائی کے ذریعے اسقاط حمل کی خدمات مہیا کرنا روک دیں، جہاں اسقاط حمل پر پابندی ہے۔ اس  اقدام کا مقصد اس ریاست میں صحت کے مراکز کے عملے اور مریضوں کو تیزی سے بدلتے ہوئے قانونی منظر نامے میں کسی بھی فوجداری کاروائی سے محفوظ رکھنا ہے۔

سن 2020 میں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے ادارے کی جانب سے میفیپری سٹون نامی اسقاط حمل کی گولیوں کے استعمال کی منظوری کے بعد حمل گرانے کے لیے سب سے عام طریقہ گولیوں کا استعمال رہا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو میں تولیدی صحت میں نئے معیارات کو آگے بڑھانے والے تحقیقی گروپ کے ڈائریکٹر ڈینیل گروسمین کے مطابق، ''اس بارے میں بہت سی تشویش ہے کہ اسقاط حمل کی خدمات فراہم کرنیوالوں کو قانونی کاروائی کا سامنا کرنے کاخطرہ ہوسکتا ہے، اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ ان لوگوں کی دیکھ بھال کر سکیں، جنہیں اس کی ضرورت ہے۔‘‘

شمالی ریاستوں میں 'پلانڈ پیرنٹ ہوڈ‘ کی ایک ترجمان ایمیلی بائیسک کا کہنا ہے کہ یہ ایک 'نامعلوم اور مبہم‘ قانونی فضاء ہے۔ ایمیلی کے مطابق ان کی تنظیم نے مریضوں کو یہ بتانے کا فیصلہ کیا ہے کہ ادویات کے ذریعے اسقاط حمل ان ریاست میں ہونا ضروری ہے، جہاں یہ عمل قانونی ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران دو ادویات لینی ہوتی ہیں۔ ایمیلی کے مطابق ادویات پر پابندی والی ریاستوں میں اکثر مریضوں کی جانب سے جراحی کے ذریعے اسقاط حمل کرانا متوقع ہے۔

گولیوں تک رسائی اسقاط حمل کے حقوق میں ایک اہم جنگ بن گئی ہے، بائیڈن انتظامیہ اس بارے میں یہ دلیل دینے کی تیاری کر رہی ہے کہ  ریاستیں ایسی دوا پر پابندی نہیں لگا سکتیں جسے ایف ڈی اے کی منظوری مل چکی ہے۔

USA | Abtreibungsklinik in Santa Teresa, New Mexico
تصویر: ROBYN BECK/AFP/Getty Images

مختلف ریاستیں مختلف قوانین

ریاست ساؤتھ ڈکوٹا میں ' سٹس امپاورمنٹ نیٹ ورک‘ نامی  اسقاط حمل فنڈ چلانے والی کم فلورن کا کہنا ہے کہ ادویات پر پابندی خواتین کے لیے اسقاط حمل کے طریقوں کو مزید محدود کر دے گی۔  فلورن کے مطابق '' ایسے قوانین کا مقصد لوگوں میں خوف پیدا کرنا ہے۔‘‘

 ساؤتھ ڈکوٹا میں جمعے کے دن سے نافذ العمل ہونے والے ایک قانون کے تحت ریاست کے  میڈیکل اینڈ آسٹیوپیتھک بورڈ سے لائسنس حاصل کیے بغیر اسقاط حمل کی دوائی تجویز کرنیوالوں کو مجرمانہ سزا دی جاسکے گی۔ 

 ریاست البامہ کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے مطابق وہ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا خواتین کو ریاست سے باہر جا کر اسقاط حمل کرانے میں مالی یا سفری مدد فراہم کرنیوالے فرد یا گروہ کے خلاف قانونی کاروائی کی جا سکتی ہے۔

البامہ میں کم آمدنی والی خواتین کو ریاست سے باہر جا کر اسقاط حمل کرانے میں مالی مدد فراہم کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم  'ییلو ہیمر‘ کا کہنا ہے کہ ریاست کے قانون میں ابہام ہونے کی وجہ سے وہ دو ہفتوں کے لیے اپنا کام معطل کر رہے ہیں۔

ش ر/ا ب ا(اے پی، روئٹرز)

پاکستان: اسقاط حمل میں اضافہ کیوں؟