1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

امریکا: 17 برس میں پہلی بار سزائے موت کی اجازت

13 جولائی 2020

امریکا کی ایک وفاقی عدالت نے نچلی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے تقریبا 17 برس بعد وفاقی حکومت کی جانب سے سزائے موت دیے جانے کی اجازت دی ہے جس پر انڈیانا کی ایک جیل میں پیر 13 جولائی کو عمل درآمد ہونا ہے۔

https://p.dw.com/p/3fDQH
USA Todesstrafe
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Ogrocki

 ساتویں امریکی اپیل سرکٹ کورٹ نے اتوار کے روز ایک نچلی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا جس میں اوکلاہوما کے 47 سالہ ڈینیئل لوئس لی کی سزائے موت پر روک لگا دی گئی تھی۔ وفاقی عدالت کی جانب سے موت کی سزا پر عمل کے لیے تقریبا ًدو عشروں بعد اس طرح کا فیصلہ آیا ہے۔ ڈینیئل لوئس لی کو 13 جولائی پیر کے دن انڈیانا کی وفاقی جیل میں انجکشن کے ذریعے موت کی سزا دینے کی تاریخی مقرر کی گئی تھی جس پر اپیل کورٹ نے عمل کرنے کی اجازت دے دی۔

ڈینیئل لوئس کو سنہ1996 میں بندوق کے ایک تاجر ولیئم مولیر، ان کی اہلیہ نینسی اور ان کی آٹھ سالہ بچی سارہ پاویل کو قتل کرنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ مقامی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائی تھی تاہم متاثرین کے اہل خانہ نے جب یہ اپیل کی کہ کورونا وائرس کے سبب سزا کے موقع پر وہ اس لیے حاضر نہیں ہوسکتے کہ اس سے ان کے وبا سے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہے، تو جمعے کے روز ایک وفاقی جج نے اس سزا پر روک لگا دی تھی۔

وفاقی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اپنے دلائل میں کہا کہ جج کے فیصلے سے قانون کی تشریح غلط انداز میں ہوتی ہے اس لیے اسے فوری طور پر مسترد کیا جا نا چاہے۔ اعلی عدالت نے وفاقی جج کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی قوانین اور اصول و ضوابط کے تحت موت کی سزا کے وقت متاثرین کی موجودگی کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس سلسلے میں، ''متاثرین کے دعوے میں کوئی قانونی منطق نہیں ہے اس لیے یہ بے کار کی دلیل ہے۔''

امریکی محکمہ انصاف نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جیل کے حکام نے متاثرین کی فیملی کے حاضر ہونے کے لیے خصوصی اقدامات کے ساتھ ہی سکیورٹی کے لیے بھی اضافی انتظامات کیے ہیں۔ حکومت نے اپنے موقف میں کہا، ''اس معاملے میں قانون کے مطابق جو سزا سنائی گئی ہے اس پر عمل کے لیے عوامی مفاد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔''

USA Todesstrafe
تصویر: picture-alliance/AP Photo

کورونا وبا کے دور میں سزائے موت   

 لیکن متاثرین کے اہل خانہ نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ متاثرہ خاندان کے وکیل بیکر کروز کا کہنا تھا، ''وفاقی حکومت نے اس خاندان کو ایسی حالت میں لا کھڑا کیا ہے کہ وہ ڈینی لی کی موت کو دیکھنے کے اپنے حق اور اپنی صحت کے تحفظ کے درمیان فیصلہ ہی نہ کر پائیں۔''

محکمہ انصاف نے عدالت میں یہ بات تسلیم کی کہ سزا دینے والے عملے کا ایک رکن کووڈ 19 سے متاثر ضرور ہے تاہم اس کا کہنا تھا کہ چونکہ متاثرہ رکن نہ تو ایگزیکیوشن چیمبر میں داخل ہوا ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کے ربط میں آیا ہے، اس لیے موت کی سزا دینے کا جو منصوبہ ہے وہ کسی بھی طرح متاثر نہیں ہوگا۔

رواں برس اور ماہ اگست میں سزا پانے والے جن چار قصورواروں کو حکومت نے موت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے اس فہرست می پہلا نام لیوس لی کا ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں امریکی اٹارنی جنرل ولیئم بار نے کہا تھا کہ وفاق کے تحت جن 62 افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے، محکمہ انصاف ان میں سے کچھ کی سزا پر عمل کے لیے کارروائی کا عمل جاری رکھے گا۔ 

اٹارنی جنرل ولیئم بار نے ان میں سے پانچ افراد کو دسمبر 2019 میں ہی موت کی سزا دینے کا وقت مقرر کیا تھا تاہم قانونی چارہ جوئی کے سبب اس میں تاخیر ہوئی ہے۔ اس برس جون میں انہوں نے جولائی اور اگست کے مہینے میں چار ایسے افراد کو موت کی سزا دینے کا اعلان کیا جو بچوں کے قتل کے قصوروار پائے گئے تھے۔

لیکن امریکا میں موت کی سزا پر اتنی جلد بازی کے حوالے سے یہ کہہ کر نکتہ چینی ہوتی رہی کہ یہ اقدامات سیاسی نکتہ نظر سے اٹھائے جا رہے ہیں جو کافی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکا میں اس وقت عوام کو طرح طرح کے دیگر مسائل کا سامنا ہے اور جس پر سبھی کو تشویش بھی لاحق ہے تو جب عوام کو اس طرح کے مسائل کی اتنی پرواہ نہیں ہے تو پھر حکومت کو موت کی سزا پر عمل کے لیے اتنی جلد بازی کی ضرورت کیا ہے؟

موت کی سزا کے حوالے سے عالمی سطح پریہ  بحث ہوتی رہی ہے کہ اس کو ختم کر دیا جا نا چاہیے۔ یوروپ میں موت کی سزا نہین دی جاتی ہے جبکا امریکا کی بعض ریاستوں نے سزائے موت کو ختم کر دیا ہے۔ تاہم امریکا کی وفاقی حکومت اس پر اب بھی عمل پیرا ہے۔

ص ز/ ج ا  (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید