1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کا مشرق وُسطیٰ میں مزید فوج بھیجنے کا اعلان

1 جنوری 2020

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے اعلان کیا ہے کہ بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے سے پیدا شدہ حالات کے پیش نظر مزید 750 امریکی فوجی جلد از جلد مشرق وسطیٰ بھیجے جارہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3VYUt
Afghanistan US-Soldat
تصویر: AFP/W. Kohsar

منگل 31 دسمبر کو ہزاروں مظاہرین نے عراق میں انتہائی سکیورٹی والے علاقے 'گرین زون‘ میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا، مظاہرین نے سفارت خانے کے باہر توڑ پھوڑ کی، دیواروں کو آگ لگادی اور امریکی پرچم نذر آتش کیے۔ یہ پرتشدد مظاہرے ایران نواز ملیشیا کے خلاف اتوار کے روز امریکی فورسز کی جانب سے کی گئی کارروائی کے خلاف کیے گئے تھے۔

بعض رپورٹوں کے مطابق مظاہرین 'امریکا مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے امریکی سفارت خانے کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

Irak Schiitische Miliz droht USA nach Luftangriffen
امریکی جنگی طیاروں نے اتوار 29 دسمبر کو ایران نواز ملیشیا کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔ جس میں اس تنظیم کے کئی اہم کمانڈروں سمیت کم از کم 25 جنگجو ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔تصویر: picture-alliance/AP Photo

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے ایک بیان میں کہا، ”امریکی افواج کی تعیناتی امریکی اہلکاروں اور تنصیبات کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات کے، جیسا کہ بغداد میں دیکھنے کو ملا ہے، مدنظر مناسب اور احتیاطی اقدام کے طور پر کی جارہی ہے۔" انہوں نے مزید کہا، ”امریکا دنیا بھر میں کہیں بھی اپنے عوام اور مفادات کا تحفظ کرے گا۔"

توقع ہے کہ آئندہ چند دنوں میں امریکی فوجیوں کو تعینات کردیا جائے گا۔ ایسپر نے ایک ٹوئیٹ میں بتایا کہ تعینات کی جانے والی نئی افواج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست کمان میں ہو گی۔

جن 750  فوجیوں کو فوراً تعینات کیا جا رہا ہے وہ خلیجی علاقے میں پہلے سے ہی تعینات 14,000 امریکی فوجیوں میں شامل ہوجائیں گی۔ 

ایران کو 'بھاری قیمت‘ ادا کرنا پڑے گی

متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی سفارت خانے پر منگل کے روز ہونے والا حملہ اس بات کا مظہر ہے کہ ایران اب بھی امریکی مفادات کو نشانہ بناسکتا ہے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر نے ایران کے خلاف حالیہ مہینوں میں اقتصادی پابندیاں مزید سخت کردی ہیں۔ ٹرمپ نے منگل کے روز ایک ٹوئٹ میں ایران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”انہیں اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔" انہوں نے حملے سے نمٹنے میں امریکا کی مدد کرنے پر عراقی حکام کا بھی شکریہ ادا کیا۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ”دہشت گردوں کی کارستانی" ہے۔

ایران نے امریکی سفارت خانے پر حملے میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے مظاہروں کے تئیں واشنگٹن کے ''غیر ذمہ دارانہ رویے" کی مذمت کی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا کہ امریکا کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ عراقی اسے اپنے خود مختار ملک میں ایک ”قابض طاقت" کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسی لیے امریکا کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔

Proteste bei der US-Botschaft in Baghdad
مظاہرین نے عراق میں انتہائی سکیورٹی والے علاقے 'گرین زون‘ میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا، مظاہرین نے سفارت خانے کے باہر توڑ پھوڑ کی، دیواروں کو آگ لگادی اور امریکی پرچم نذر آتش کیے۔ تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed

خیال رہے کہ امریکی جنگی طیاروں نے اتوار 29 دسمبر کو ایران نواز ملیشیا کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔ جس میں اس تنظیم کے کئی اہم کمانڈروں سمیت کم از کم 25 جنگجو ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ عراقی حکومت نے ان فضائی کارروائیوں پر امریکا کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے تعلقات خطرے میں پڑ گئے ہیں کیوں کہ اس طرح کی کارروائیاں اس کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔

دوسری طرف امریکی وزیر دفاع مائیک ایسپر نے عراقی حکومت سے کہا کہ وہ اپنے ملک میں امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ”اپنی بین الاقوامی ذمہ داری پوری کرے۔"

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ج ا / ا ب ا (ڈ ی پی اے، اے ایف پی، اے پی)