1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: افغانستان اورعراق میں فوج کی تعداد کم کرنے کا اعلان

18 نومبر 2020

امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے منگل کے روز اعلان کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاوس چھوڑنے سے قبل افغانستان اورعراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کافی کمی کردیں گے۔

https://p.dw.com/p/3lTBS
Afghanistan 2017 | Operation Resolute Support | US-Armee
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Operation Resolute Support Headquarters/Sgt. Justin T. Updegraff

پنٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا اگلے دو ماہ کے دوران افغانستان سے اپنے تقریباً 2000 اور عراق سے مزید 500 فوجیو ں کو واپس بلا لے گا۔ دوسری طرف نیٹو کے سربراہ جینز اسٹولٹن برگ نے افغانستان سے جلد بازی میں فوجیوں کی واپسی کے مضمرات کے تئیں متنبہ کیا ہے۔

قائم مقام امریکی وزیر دفاع کرسٹوفر ملر نے کہا کہ 15جنوری تک افغانستان سے 2000 اور عراق سے 500 امریکی فوجیں واپس بلالی جائیں گی۔ جس کے بعد دونوں ملکوں میں سے ہر ایک میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 رہ جائے گی۔

کرسٹوفر ملر نے کہا کہ کہ امریکا نے خطے میں زیادہ تر مرکزی اہداف حاصل کرلیے ہیں۔ داعش کو بھی شکست دے دی گئی ہے۔ یہ وقت ہے کہ امریکی فوجیوں کو گھر واپس لایا جائے۔ انہوں نے کہا”یہ ہمارے طے شدہ منصوبوں اور اسٹرٹیجک مقاصد کا حصہ ہیں، جسے امریکی عوام کی تائید حاصل ہے اور یہ امریکی پالیسی یا مقاصد میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہے۔"

قائم مقام امریکی وزیر دفاع نے اس تاثر کی تردید کی کہ امریکا کا یہ اقدام افغانستان اور عراق میں دہشت گردوں کے لیے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔  صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے وزیر دفاع مارک ایسپر کو برطرف کرنے کے بعد ملر کو مقرر کیا تھا۔

ٹرمپ نے، جو حالیہ صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن سے شکست کے بعد آئندہ جنوری میں وائٹ ہاوس چھوڑنے والے ہیں، پچھلے دنوں اعلان کیا تھا کہ کرسمس سے قبل دونوں ملکوں سے تمام امریکی فوجیں واپس بلالی جائیں گی۔

نیٹو کا موقف

قبل ازیں منگل کو نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے افغانستان سے جلد بازی میں فوجیوں کی واپسی کے تئیں متنبہ کرتے ہوئے کہا”اتنی جلد بازی میں یا غیر مربو ط انداز میں انخلاء کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے۔"

اسٹولٹن برگ نے مزید کہا کہ ”افغانستان کے عالمی دہشت گردوں کا ایک بار پھر مرکز بننے کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ یہ دہشت گرد ہمارے ملکوں پر حملوں کی منصوبہ بندی اور انتظام کریں گے اور داعش افغانستان میں دہشت کی وہ خلافت دوبارہ قائم کر سکتی ہے جس سے وہ شام اور عراق میں محروم ہوگئی ہے۔"

نیٹو کے 30 ممالک کے تقریباً 12000 افواج اس وقت افغانستان میں موجود ہیں۔ یہ فوجی افغانستان کی قومی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور مدد کا کام کرتے ہیں۔ اس میں امریکی فوجیوں کی تعداد نصف ہے لیکن نیٹو کے اتحادی نقل و حمل، لوجیسٹکس، فضائی ٹرانسپورٹ اور دوسرے کاموں میں مدد کے لیے بڑی حد تک امریکی فوجیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکی فوجیوں کی مکمل واپسی کی صورت میں افغانستان میں نیٹو کا آپریشن تقریباً ختم ہوکر رہ جائے گا۔

نیٹو کے سربراہ کے مطابق ”اب ہمیں ایک مشکل فیصلے کا سامنا ہے۔ ہم تقریباً 20 سال سے افغانستان میں ہیں اور کوئی نیٹو اتحادی ضرورت سے زیادہ وہاں نہیں رکنا چاہتا، لیکن بہت جلدی میں یا غیرمربوط انداز میں کیے جانے والے انخلا کی قیمت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔"

اسٹولٹن برگ نے کہا کہ امریکی فوجیوں کی تعداد میں مزید کمی کے بعد بھی نیٹو، افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت، مشاورت اور تربیت کا کام جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ 'ہم نے 2024 تک انہیں فنڈ کی فراہمی کا عزم کر رکھا ہے۔‘نیٹو کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یورپ اور دوسرے ملکوں کے ہزاروں فوجی افغانستان میں امریکی فوجیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ایک ہزار سے زیادہ فوجی مارے جا چکے ہیں۔

بلند حوصلہ افغان فوجی خواتین

انہوں نے مزید کہا'ہم اکٹھے افغانستان گئے اور جب صحیح وقت آئے گا تب ہمیں اکٹھے ہو کر مربوط اور منظم طریقے سے وہاں سے نکلنا چاہیے۔ مجھے تمام نیٹو اتحادیوں پر اعتماد ہے کہ وہ ہماری سلامتی کے لیے اس عزم پر کاربند رہیں گے۔‘

امریکی افواج کی واپسی کا سبب

امریکا اورطالبان کے درمیان اس سال کے اوائل میں قطر میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کی روسے امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کے افواج کو افغانستان سے نکلنے کے لیے 14 ماہ کے ایک منصوبے پر اتفاق رائے ہوگیا تھا۔

افغان سکیورٹی امور کے ماہر عتیق اللہ امرخیل نے اس سال کے اوائل میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا اپنی فوجوں کو افغانستان سے شاید اس لیے بھی جلد از جلد واپس نکالنا چاہتا ہے کیوں کہ وہ صدر اشرف غنی کی حکومت سے مایوس ہوگیا ہے۔

امرخیل کا کہنا تھا”افغان حکومت امن مساعی کے حوالے سے خاطرخواہ پیش رفت نہیں کر رہی ہے اور امریکا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ واشنگٹن افغان رہنماوں کو ایک واضح پیغام دینا چاہتا ہے کہ زمینی صورت حال خواہ جو بھی رہے وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے گا۔"

گوکہ امریکا افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کم کررہا ہے تاہم وہ ملک کے سفارتی معاملات میں بھرپور حصہ لے رہا ہے۔

بغداد میں راکٹ حملے

امریکی افواج کو واپس بلانے کے پنٹاگون کے اعلان کے چند گھنٹے کے اندر ہی بغداد میں انتہائی سکیورٹی والے گرین زون میں چار راکٹ گرے۔

عراق کے دو سینئر عہدیداروں نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ یہ راکٹ امریکی سفارت خانے سے صرف 600 میٹر کی دوری پر گرے۔ امریکی فضائی دفاعی نظام نے ان راکٹوں کو فضا میں ہی روک لیا۔ تاہم اس حملے میں دو عراقی سکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔

فی الحال کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

ج ا/  ص ز  (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

یزیدی خواتین بارودی سرنگوں کی صفائی میں مصروف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں