1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کا اتحادیوں کی جاسوسی نہ کرنے پر غور

امتیاز احمد29 اکتوبر 2013

امریکی حکومت نے اپنے خفیہ اداروں کی طرف سے دنیا بھر میں جاسوسی کے عمل کا دفاع کیا ہے۔ دوسری جانب امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی نے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے تمام پروگراموں کا جائزہ لینے اور تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1A7Zi
تصویر: Reuters/Kevin Lamarque

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور دیگر عالمی سیاستدانوں کی مبینہ جاسوسی کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد اوباما انتظامیہ اپنے اتحادی ملکوں کے سربراہان کی جاسوسی نہ کرنے پر غور کر رہی ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ نگرانی سے متعلق چند سرگرمیوں پر نظر ثانی کی جائے گی لیکن ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو پایا ہے۔

جامع تحقیقات

قبل ازیں امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ Dianne Feinstein نے ملکی خفیہ ادارے ’این ایس اے‘ کے خلاف الزامات کی ’جامع تحقیقات‘ کا اعلان کیا ہے۔ اس با اثر ڈیموکریٹک سنیٹر اکا نتہائی تنقیدی لہجہ اپناتے ہوئے کہنا تھا کہ اتحادی حکومتوں کے سربراہان کی جاسوسی ناقابل قبول ہے۔

فائن اسٹائن کا مزید کہنا تھا، ’’یہ چیز واضح ہو چکی ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے تمام پروگراموں کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ کانگریس کو مکمل طور پر علم ہونا چاہیے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں۔این ایس اے کی طرف سے امریکا کے اتحادی ملکوں، فرانس، میکسیکو، اسپین اور جرمنی کے اعلیٰ سیاستدانوں کی جاسوسی کو میں مکمل طور پر مسترد کرتی ہوں۔‘‘

سنیٹر فائن اسٹائن کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق سن 2002ء سے جرمن چانسلر کے ٹیلی فون کی جاسوسی کی جا رہی تھی۔ اس بیان سے بالواسطہ طور پر ان میڈیا رپورٹوں کی بھی تصدیق ہو گئی ہے کہ گزشتہ دس برسوں سے جرمن چانسلر کے موبائل فون کی جاسوسی کی جاتی رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی طرف سے دفاع

دریں اثناء امریکی حکومت نے وسیع پیمانے پر معلومات جمع کرنے کے عمل کا دفاع کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا اپنے یورپی اتحادیوں کی طرف سے تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اگر ہم اپنے شہریوں اور اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں سے آگے ہونا چاہیے۔ یہ کام ہمارے خفیہ اداروں نے غیر معمولی طور پر بہت اچھی طرح انجام دیا ہے۔‘‘

جے کارنی کے مطابق اسی وجہ سے نائن الیون حملوں کے بعد متعدد دہشت گردانہ حملوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔ تاہم جرمن چانسلر کے فون کی نگرانی کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا کو اپنی جاسوسی کی چند سرگرمیوں پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم معلومات اس وجہ سے نہیں جمع کر رہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں، بلکہ یہ عمل ضروری ہے۔‘‘

جے کارنی کا مزید کہنا تھا، ’’اگرچہ موجودہ انٹیلیجنس کے اقدامات قانونی ہیں، لیکن ہم شاید زیادہ نگرانی اور شفافیت کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔‘‘

دریں اثناء امریکا کے معروف روزنامے ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق این ایس اے نے پہلی بار اس امر کا اقرار کر لیا ہے کہ اُس نے دنیا کے چوٹی کے 35 لیڈروں کی ٹیلی فون کالز کی جاسوسی کی۔ اسے امریکی حکومت کی طرف سے جاسوسی کے اس مسلسل واقعے کا پہلا سرکاری اقرار بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

تاہم وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہے کہ آیا امریکی صدر کو اس بات کا علم تھا کہ دنیا کے 35 اعلیٰ سیاستدانوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید