1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا نے تھائی لینڈ کے ساتھ عسکری تعلقات معطل کر دیے

عاصم سليم1 جون 2014

امريکی وزير دفاع نے تھائی فوجی حکومت سے مطالبہ کيا ہے کہ ملک ميں فوری طور پر اليکشن کرائے جائيں اور زير حراست افراد کو رہا کر ديا جائے۔ قبل ازيں تھائی فوج نے کہا تھا کہ تھائی لينڈ ميں ايک برس تک انتخابات نہيں ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/1CA2a
تصویر: Reuters

امريکی وزیر دفاع چک ہيگل نے سلامتی کے موضوع پر سنگاپور ميں منعقدہ کانفرنس ميں ہفتے کو مزيد کہا کہ حاليہ پيش رفت کے تناظر ميں تھائی لينڈ کے ساتھ مدتوں سے چلے آ رہے عسکری تعلقات بھی معطل کر ديے گئے ہيں۔ ادھر ہفتے ہی کے روز آسٹريلوی وزير خارجہ نے بھی اعلان کيا ہے کہ بنکاک کے ساتھ عسکری روابط ميں کمی لائی جا رہی ہے۔

چک ہيگل نے تھائی لينڈ کی فوجی حکومت پر زور دے کر کہا ہے کہ بائيس مئی کو ملک ميں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد زير حراست ليے جانے والے درجنوں افراد کو رہا کيا جائے۔ انہوں نے يہ بات سنگاپور ميں ايشيئن سکيورٹی کانفرنس ميں اپنی تقرير کے دوران کہی۔ امريکی وزير دفاع نے تھائی فوجی رہنماؤں پر زور ديا کہ تھائی لينڈ ميں آزادی رائے کے خلاف لاگو پابنديوں کو بھی ختم کر ديا جائے۔ انہوں نے انتخابی عمل کے ذريعے ملک ميں جمہوريت کی فوری بحالی پر زور ديا۔

تھائی لینڈ کی فوج کے سربراہ جنرل پرایُت چان اوچا
تھائی لینڈ کی فوج کے سربراہ جنرل پرایُت چان اوچاتصویر: Getty Images

قبل ازيں جمعے کی شب تھائی لینڈ کی فوج کے سربراہ جنرل پرایُت چان اوچا نے کہا تھا کہ ملک میں نئے انتخابات کرانے میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ان کے بقول اليکشن سے قبل امن و امان کی بحالی اور اصلاحات لازمی ہيں۔ اوچا نے يہ بات مارشل لاء کے نفاذ کے بعد عوام سے اپنے پہلے خطاب میں کہی۔ انہوں نے مظاہرین کو ایک مرتبہ پھر خبردار کیا اور کہا کہ ان کی کارروائیاں تھائی عوام کو ’خوشیاں‘ واپس دینے کے عمل کو سست بنا سکتی ہيں۔

تھائی لينڈ ميں سابق وزير اعظم ينگ لک شناواترا کی حکومت کے خلاف کئی مہينوں سے جاری احتجاجی مظاہروں ميں کُل اٹھائيس افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہو چکے تھے۔ سياسی افرتفری کے سبب بائيس مئی کے روز فوجی سربراہ جنرل پرایُت چان اوچا نے حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے مارشل لاء نافذ کر ديا۔ فوجی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے تھائی عوام اسے جمہوريت پر حملہ قرار ديتے ہيں۔

دوسری جانب کئی ماہرين کا مؤقف ہے کہ فوج کا يہ اقدام کسی وسيع تر طاقت کے کھيل کا حصہ ہو سکتا ہے۔