1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور بھارت میں ماند پڑتے تجارتی تعلقات

زبیر بشیر25 ستمبر 2013

سن 2008 کے جوہری معاہدے اور سن 2009 کے تجارتی معاہدوں بعد امریکا اور بھارت کے درمیان زور پکڑتے ہوئے اقتصادی تعلقات اب آہستہ آہست مانند پڑتے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19oQK
تصویر: dapd

ماہرین کی نظریں اس بات پر لگی ہیں کہ کیا بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے حالیہ دورہ امریکا سے دونوں ملکوں کے درمیان سست روی کے شکار ان تجارتی تعلقات کو فروغ مل سکے گا یا نہیں۔

سن 2008 میں امریکا اور بھارت کے درمیان ایک سول جوہری معاہدہ طے پایا تھا۔ ماہرین کے نزدیک اس معاہدے نے بھارت کی اس عالمی تنہائی کا خاتمہ کیا، جس کا شکار بھارت سن 1998 میں اپنے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہوگیا تھا۔

اس سول جوہری معاہدے پر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے دستخط کیے تھے۔ تاہم اس دوران اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی۔

US-Präsident George W. Bush mit dem indischen Premier Mammohan Singh Staatsbesuch
سول جوہری معاہدے پر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے دستخط کیے تھےتصویر: AP

آج بھارتی کابینہ نے ماضی میں امریکا کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے تحت توشیبا کمپنی کے امریکی جوہری یونٹ کے ساتھ ایک ابتدائی معاہدے کی منظوری دی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ابتدائی معاہدے تک پہنچنے کے لیے پانچ سال کا عرصہ لگا ہے۔

اسی طرح بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جب سن2009 میں امریکا کا دورہ کیا تو اس وقت جشن کا سا ماحول تھا۔ دنیا کی ان دو بڑی جمہوریتوں کے درمیان بہت سے تجارتی معاہدے ہوئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جوش ماند پڑتا چلا گیا۔

اگر ہم اس وقت کو دیکھیں تو امریکی مقتدر حلقے یہ خیال کرتے تھے کہ چین کا معاشی مقابلہ کرنے کے لیے بھارت سے بہتر امریکا کے پاس اب کوئی اور منڈی نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما انتظامیہ نے اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

Außenminister Mukherjee und Außenministerin Rice amerikanischen Nuklear-Deal mit Indien
سن 2008 کی اس تصویر میں جوہری معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کونڈا لیزا رائس اپنے بھارتی ہم منصب پرنب مکھر جی کے ساتھتصویر: picture-alliance/ dpa

جمعے کے روز وائٹ ہاؤس میں ان دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہونے جا رہی ہے۔ اب جب کہ یہ دونوں رہنما چار سال بعد دوبارہ ملنے جا رہے ہیں تو اس عرصے میں اس حوالے سے کوئی زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔

بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم ساٹھ بلین امریکی ڈالر ہے، جو امریکا اور چین کے درمیان تجارتی حجم کے محض آٹھویں حصے کے برابر ہے۔ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ دنوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اب دوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

قومی سلامتی کے مشیر شوشنکر مینن نے جمعے کے روز اس حوالے سے کہا ، ’’اس کا تعلق میکرو اکنامکس سے ہے۔ امریکی دوستوں کو بھارت کی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ امریکا کے تحفظات نئے نہیں ہیں انہیں یہ ہمیشہ سے ہیں اور شاید رہیں گے بھی۔‘‘

امریکا میں کام کرنے والی بھارتی آئی ٹی کپمنیاں ویزوں کے معاملات کو لے کر پہلے ہی شدید ناراض ہیں۔ ان اداروں کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ اپنے اداروں کے لیے ہنر مند افراد کے لیے ویزہ مانگتے ہیں۔

Call Center training in Indien
امریکی قانون سازوں نے بھارت کو امریکی جاب انڈسٹری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہےتصویر: AP

جون کے مہینے میں بھارتی امریکی تجارتی تعلقات کے حوالے سے ایک غیر معمولی اقدام اس وقت دیکھنے میں آیا جب 14 تجارتی کمپنیوں نے آپس میں ایک اتحاد قائم کر لیا اور بھارت میں پرائیویسی اور حقوق کی ملکیت کے حوالے سے درپیش مشکلات پر آواز اٹھائی۔

اسی طرح جولائی کے مہینے میں 170 امریکی قانون سازوں نے صدر اوباما کو خط لکھا اور بھارت کو امریکی جاب انڈسٹری کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا۔

ماہرین کو اب دو دن بعد ہونے والی سربراہ ملاقات سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہیں۔

اس ملاقات میں امریکا یہ جاننا چاہے گا کہ بھارت امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو آگے بڑھانے کا خواہاں ہے یا نہیں اور ادھر بھارت یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ سن 2014 میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا۔