1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکی صدر سويڈن ميں، شام اور ديگر موضوعات زير بحث

عاصم سليم4 ستمبر 2013

امريکی صدر باراک اوباما آج چار اگست کو يورپی ملک سويڈن پہنچ چکے ہيں۔ توقع کی جاری ہے کہ اوباما کے اس دو روزہ دورے کے دوران مشرق وسطی کے ملک شام سے متعلق حاليہ بحران مرکزی اہميت کا حامل رہے گا۔

https://p.dw.com/p/19byz
تصویر: REUTERS/Jonas Ekstromer/Scanpix Sweden

امريکی صدر بدھ کے روز سويڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم پہنچے ہيں۔ يہ کسی برسر اقتدار امريکی صدر کا اس ملک کا محض دوسرا دورہ ہے۔ اس سے قبل سن 2001 ميں اس وقت کے امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے يورپی يونين کی اس رکن رياست کا دورہ کيا تھا۔

امريکی صدر کے دورے کے موقع پر اسٹاک ہوم ميں سکيورٹی کے سخت انتظامات کيے گئے ہيں اور جس ہوٹل ميں وہ قيام کر رہے ہيں اس کے ارد گرد کے علاقے کو بند کرا ديا گيا ہے۔ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ اوباما کے اس دورے کے موقع پر شہر ميں قريب دس چھوٹے چھوٹے مظاہرے کيے جائيں گے، جن ميں لوگ مختلف ممالک ميں جاری امريکا کی عسکری کارروائيوں اور پچھلے دنوں منظر عام پر آنے والے جاسوسی سے متعلق انکشافات کے حوالے سے احتجاج کیا جائے گا۔

شام کے موضوع پر امريکی سينيٹ کا اجلاس جاری
شام کے موضوع پر امريکی سينيٹ کا اجلاس جاریتصویر: Reuters

امريکی صدر اوباما آج بدھ کی شب ايک عشائيے ميں شرکت کريں گے، جس ميں ان کے علاوہ ناروے، ڈنمارک اور آئس لينڈ کے وزرائے اعظم سميت فن لينڈ کے صدر بھی موجود ہوں گے۔ اوباما اسٹاک ہوم کے رائل انسٹيٹيوٹ آف ٹيکنالوجی کا بھی دورہ کريں گے، جسے صاف اور ديرپا توانائی کے ذرائع سے متعلق تحقيقات کے سلسلے ميں يورپ ميں چوٹی کے اداروں ميں شامل جاتا ہے۔ اوباما جمعرات کے روز سويڈن کے شاہی خاندان سے ملاقات کريں گے، جس کے بعد وہ روسی شہر سينٹ پيٹرز برگ کے ليے روانہ ہو جائيں گے، جہاں وہ ’جی ٹوئنٹی‘ کے سربراہی اجلاس ميں شرکت کريں گے۔

امريکی صدر کے حاليہ دورے کے بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے سويڈن کے وزير خارجہ کارل بلڈٹ نے کہا ہے کہ اگرچہ شام کا موضوع مرکزی اہميت کا حامل رہے گا ليکن امريکا اور يورپی يونين کے مابين آزاد تجارت سے متعلق مجوزہ معاہدہ بھی زير غور آئے گا۔ شام کے موضوع پر ايک مقامی ٹيلی وژن چينل سے بات کرتے ہوئے وزير خارجہ بلڈٹ نے آج صبح ہی کہا، ’’ہميں طاقتور جواب دينا ہو گا اور ہم يہ اميد کرتے ہيں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی اس بات پر متفق ہو۔‘‘

قبل ازيں سويڈن کے وزير اعظم فريڈرک رائنفيلڈٹ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’ميرے خيال ميں جو مسئلہ مکالمت کے ذريعے حل ہونا چاہيے، ہم اس کے حل کے ليے عسکری کارروائی کے خلاف ہيں۔‘ دريں اثناء اس يورپی ملک کی حکومت نے يہ بھی کہا ہے کہ وہ صدر اوباما کے ساتھ ’متعدد موجودہ مسائل‘ پر بات چيت کرے گی۔

سويڈش انسٹيٹيوٹ آف انٹرنيشنل افيئرز کے شمالی امريکی خطے پر مہارت رکھنے والے جان جوئل اينڈرسن کے بقول اسٹاک ہوم انتظاميہ کے ليے شام کے موضوع پر بات چيت کرنا دشوار ہوگا، بالخصوص اس بات کی روشنی ميں کہ ابھی پچھلے ہی ہفتے برطانوی پارليمان نے شام کے خلاف عسکری کارروائی کے خلاف فيصلہ کيا۔ اينڈرسن نے نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات کرتے ہوئے يہ بھی کہا کہ لندن انتظاميہ کے اقدام کے بعد يورپی ممالک بھی محتاط رويہ اختيار کريں گے۔

امريکی صدر اپنے اس دورے کے بعد جمعرات کے روز سينٹ پيٹرز برگ روانہ ہوں گے، جہاں وہ ’جی ٹوئنٹی‘ کے اجلاس ميں شرکت کريں گے۔ اس اجلاس کے موقع پر وہ چين اور فرانس کے سربراہان مملکت سے دو طرفہ ملاقاتيں کريں گے ليکن روسی صدر ولادی مير پوٹن کے ساتھ ان کی کوئی ملاقات طے نہيں ہے۔