1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الیکشن اور کراچی میں سلامتی کی صورت حال: حقیقت اور دعوے

25 اپریل 2013

پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں تین ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ کراچی میں سلامتی اور امنِ عامہ کی صورت حال کے بارے میں سکیورٹی اہلکاروں کے بیانات اور سیاسی حلقوں کے موقف میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/18NH0
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

کراچی میں ہر طرف امن ہے اور جیسے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ لوگ بے خوف اپنے گھروں سے باہر نکل رہے ہیں اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ پاکستان رینجرز نے دہشت گردوں کے خلاف کئی کامیاب آپریشن کیے ہیں۔ یہ کہنا ہے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل سندھ میجر جنرل رضوان اختر کا۔

Pakistan Anschlag in Karachi Begräbnis 24.04.2013
گزشتہ 10 دنوں میں مرنے والوں کی تعداد 42 ہوچکی ہےتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

دوسری طرف کراچی میں تحریکِ انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کے دفاتر پر حملے ہو چکے ہیں اور پچھلے چند روز کے دوران کئی افراد سیاسی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ گزشتہ 10 دنوں میں اس طرح مرنے والوں کی تعداد 42 ہوچکی ہے اور شہر میں کہیں نہیں لگتا کہ ملک میں عام انتخابات اتنے قریب آ چکے ہیں۔ نہ کوئی جلسے جلوس نظر آتے ہیں اور نہ ہی کسی سڑک پر کسی سیاسی جماعت کے امیدواروں کی تصاویر آویزاں ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انتخابات جیسے کسی دوسرے ملک میں ہو رہے ہیں۔

کراچی کی اصل تصویر کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینے سے عموماً سب کتراتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ حقائق کسی کے علم میں نہیں۔ بس صاف صاف بات کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ کراچی پولیس کا بھی کہنا ہے کہ وہ کراچی کے ہر علاقے تک رسائی نہیں رکھتی۔ یہ بات پولیس کی طرف سے الیکشن کمیشن کو ایک خط میں لکھی گئی ہے۔ رینجرز بھی کچھ ایسی ہی باتیں کر چکے ہیں ہر چند کہ ان کا موقف کچھ دوسرے علاقوں کے حوالے سے ہے۔ جن علاقوں کے بارے میں یہ موقف پولیس کا ہے وہ عموماً ایسے علاقے ہیں جہاں متحدہ قومی موومنٹ کا اثر و رسوخ ہے۔ لیکن کوئی بھی پولیس اہلکار یہ بات ریکارڈ پر نہیں کہہ سکتا۔

Pakistan Anschlag in Karachi 24.04.2013
کراچی میں دہشت گردی کے واقعات عام ہیںتصویر: imago/Xinhua

رینجرز کی شکایت ان علاقوں کے بارے میں ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ طالبان کا قبضہ ہے۔ کون کس کی پشت پناہی کر رہا ہے، یہ بھی صاف نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتیں کم از کم یہی کہتی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کہتی ہے کہ لیاری امن کمیٹی کی پشت پر کچھ سرکاری قوتیں ہے۔ جماعت اسلامی کہتی ہے کہ MQM کو کچھ ایسی ہی حمایت حاصل ہے۔
ڈی جی رینجرز رضوان اختر کا کہنا ہے کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت کی پشت پناہی کوئی جرائم پیشہ گروہ کر رہا ہے۔ ایک میڈیا انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کسی جماعت کو اس الزام سے خارج نہیں سمجھا جا سکتا۔ رینجرز کی طرف سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ جب وہ اغوا برائے تاوان کے مجرموں کو پکڑنے کے لیے کہیں آپریشن کرتے ہیں، تو کسی ملزم کے مرنے پر سیاسی جماعتوں کے حامی جلوس کیوں نکالتے ہیں۔ پچھلے دنوں لیاری میں شہر کے ایک تاجر کے اغوا کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔

جماعت اسلامی کے زاہد حسین عسکری کہتے ہیں کہ کراچی کی صورتحال کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کو اب کی بار خدشہ ہے کہ کم از کم چھ انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں وہ پچھلی بار جیتے تھے لیکن اس مرتبہ وہ یہ نشستیں ہارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زاہد حسین عسکری کے بقول ان چھ انتخابی حلقوں میں ہار جانے کا خدشہ ہی ایم کیو ایم سے مبینہ طور پر سب دہشت گردی کروا رہا ہے۔

Pakistan Anschlag in Karachi 24.04.2013
جماعت اسلامی سمیت تمام دائیں بازو کی جماعتوں کی خواہش ہے کہ کراچی میں انتخابات فوج کی موجودگی میں ہوںتصویر: imago/Xinhua

دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ اپنی اس دیرینہ حریف طاقت پر بالواسطہ الزام لگاتے ہوئے یہ کہہ رہی ہے کہ مذہبی انتہا پسند قوتیں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ہی خلاف یہ سب دہشت گردی کر رہی ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے فیصل سبزواری کہتے ہیں کہ ان کی جماعت ان سب چیزوں سے ڈرتی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس اتوار کو ان کی پارٹی خواتین کا ایک جلسہ کررہی ہے اور یہ جلسہ اس بات کی غمازی کرے گا کہ متحدہ قمی موومنٹ ابھی بھی اس شہر میں زندہ ہے۔

ایم کیو ایم کے خاص ووٹ بینک میں سے ایک حصہ اہل تشیع کا بھی ہے۔ پچھلے دنوں جب کوئٹہ میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات کے خلاف کراچی میں احتجاج کیا گیا تو متحدہ نے دھرنوں کی تیاری میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ لیکن پھر دھرنوں کے اختتام کے اعلان کے حوالے سے دھرنوں میں شامل افراد اور MQMکے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے۔ پھر عباس ٹاﺅن بم دھماکوں کے موقع پر بھی اہل تشیع کی نمائندہ مجلس وحدت المسلمین سے متحدہ کے اختلافات نے ان سوالات کو جنم دیا تھا کہ آیا ایم کیو ایم اپنا شیعہ ووٹ بینک کھو چکی ہے۔ متحدہ کے کارکنان اس خوف سے کہ شاید کچھ قوتیں واقعی یہ چھ پارلیمانی نشستیں ان سے چھیننا چاہتی ہیں، یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔

جماعت اسلامی سمیت تمام دائیں بازو کی جماعتوں کی خواہش ہے کہ کراچی میں انتخابات فوج کی موجودگی میں ہوں۔ لیکن جب الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ نئی حلقہ بندی کے لیے گھر گھر جایا جائے گا اور فوج سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ہو گی، تب بھی اس مہم میں فوج کہیں نظر نہیں آئی تھی۔

شہر میں اسلحہ بارود کی بہت زیادہ دستیابی اور جس طرح اب تک فوج نے اپنی غیر حاضری سے غیر یقینی کی حالت کو تقویت دی ہے، یہ عوامل اس خدشے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کراچی میں آئندہ انتخابات جیسے بھی ہوں، غالباً پرامن نہیں ہوں گے۔ طویل عرصے بعد کراچی کے ان علاقو ں میں جہاں متحدہ کی اکثریت تصور کی جاتی ہے، سخت مقابلہ ممکن نظر آتا ہے جو اگر سیاسی نہ بھی ہوا تو انتخابی ضرور ہو گا۔ کراچی کے شہری اسی سخت مقابلے سے خائف ہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: عصمت جبیں