1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الجزائر کی آزادی کے پچاس سال، خواتین تاحال مساوات کے انتظار میں

20 مارچ 2012

الجزائر کی خواتین نے اپنے ملک کی فرانس سے آزادی میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ مگر آزادی کے پچاس سال بعد آج بھی وہ اپنے لیے مردوں کے ساتھ برابری کے انتظار میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/14O7c
تصویر: AP

الجزائر کی جنگ آزادی کی ایک سابقہ مجاہدہ اور ماہر تعلیم ذلیخہ بیکادُور کہتی ہیں کہ ساڑھے سات سال تک جنگ کے بعد 1962 میں ہم نے فرانس سے آزادی حاصل کی تھی۔ لیکن آزادی کے وقت ہی ہم نے محسوس کر لیا تھا کہ ہم نے جنگ میں حصہ تو مرد شہریوں کے شانہ بشانہ لیا تھا تاہم ہمیں خاموشی سے اپنے گھروں کو لوٹ جانا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بات کو تسلیم کرنا بہت مشکل تھا۔

پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، الجزائر کے معاشرے میں خواتین کا کردار کم سے کم تر ہوتا چلا گیا۔ ذلیخہ بیکادُور کہتی ہیں کہ الجزائر کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں خواتین کی تعداد تیرہ تھی، دوسری قانون ساز اسمبلی میں صرف دو اور پھر جبر شروع ہو گیا۔

Referendum Algerien Protestaktion Mütter mit den Fotos ihrer vermissten Söhne Wahlen
تصویر: AP

الجزائر میں 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں عام شہریوں نے خاندانی قوانین کے نام پر تجویز کردہ ضابطوں کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن 1984 میں یہی مسودہ قانون اسی پرانے متن کے ساتھ منظور کر لیا گیا جو ابھی تک نافذ العمل ہے۔ اس قانون کے تحت خواتین کو minor یا ’ادنیٰ‘ قرار دیا گیا ہے۔

یہ قانون الجزائر کے آئین سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ ملکی آئین میں مردوں اور خواتین کو بنیادی طور پر ایک دوسرے کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔ الجزائر میں اس متنازعہ ضابطے میں اصلاحات کے لیے اب تک کئی سماجی اور سیاسی تحریکیں شروع کی جا چکی ہیں۔

Wahlveranstaltung in Algerien vor den Wahlen
تصویر: AP

شمالی افریقہ کے اس ملک میں خواتین نے اپنے حقوق کے لیے جو تحریکیں چلائیں، ان میں آزادی کے بعد مارچ 1965 میں سڑکوں پر لاکھوں خواتین کی طرف سے کیا جانے والا مارچ بھی شامل تھا۔ تب اس مارچ کی اپیل جنگ آزادی میں حصہ لینے والی سابقہ خاتون کارکنوں نے کی تھی۔

الجزائر کی ایک معروف مصنفہ اور ماہر سماجیات فاطمہ وُوسیدیک کے مطابق الجزائر کی آبادی میں خواتین کا تناسب 53 فیصد بنتا ہے۔ وہ اپنے وطن میں آنے والی ہر تبدیلی میں شامل رہی ہیں، آزادی کی اس جنگ سے پہلے، درمیان اور بعد میں بھی جس میں ملکی مؤرخین کے بقول 1.5 ملین الجزائری باشندے مارے گئے تھے۔

Flüchtlingslager Smara
تصویر: AP

فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی نے اس بارے میں اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ الجزائر میں خواتین کو ان کی کوششوں کے باوجود سیاسی زندگی میں بہت زیادہ شرکت کا موقع نہیں دیا گیا۔ آج ملکی دارالحکومت الجزائر کی پارلیمان میں 389 ارکان میں سے صرف 30 خواتین ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی سینیٹ میں بھی اگر خواتین ارکان موجود ہیں تو وہ سینیٹ کے اس ایک تہائی حصے سے تعلق رکھتی ہیں جو صدر مملکت کی طرف سے نامزد کیا جاتا ہے۔

الجزائر میں چھوٹے بڑے بلدیاتی علاقوں اور اداروں کے سربراہان کی تعداد 1541 بنتی ہے۔ ان میں سے صرف تین میئرز خواتین ہیں۔

اس صورت حال کے باوجود الجزائر کے معاشرے میں خواتین نے کئی شعبوں میں اپنے لیے پیش رفت کو یقینی بھی بنایا ہے، خاص طور پر تعلیمی شعبے میں۔ آج اس ملک میں اسکولوں میں تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ و طالبات میں بچیوں کا تناسب 60 فیصد کے قریب ہوتا ہے۔

جہاں تک ملازمتوں کا تعلق ہے تو الجزائر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد صحت، تعلیم اور انصاف کے شعبوں میں کام کرتی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے مطابق اس ملک میں بے روزگاری کا تناسب 10 فیصد ہے مگر خواتین میں بے روزگاری کی شرح 19 فیصد تک پہنچی ہوئی ہے۔

فاطمہ وُوسیدیک کہتی ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ الجزائر کی خواتین کو آج تک کچھ بھی آسانی سے نہیں دیا گیا۔ ’’انہوں نے اپنے لیے ہر شے اور ہر کامیابی اور مصیبتیں برداشت کر کے خود حاصل کی ہے۔‘‘

رپورٹ : عصمت جبیں

ادارت: کشور مصطفٰی