البانیہ میں سیاحت کے رنگ
البانیہ کا شمار یورپ کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن یہ ملک قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ نصف سے زائد مسلم آبادی والا یہ ملک اپنے کھانوں کے ساتھ ساتھ مذہبی رواداری کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔
اٹھائیس لاکھ نفوس پر مشتمل اس ملک میں سورج بھی ہے، پہاڑ اور سمندر بھی اور آثار قدیمہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ سن دو ہزار انیس میں یہاں آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد ساٹھ لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔
اس ملک کو حیرت انگیز پہاڑی سلسلے، ڈرامائی گھاٹیاں اور ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ بہتے دریا مزید خوبصورت بنا دیتے ہیں۔
اس ملک کا سفر کرتے ہوئے آپ کو جگہ جگہ مساجد، چرچ اور قلعے نظر آتے ہیں، جو یہاں کی پندرہ سو سال سے زیادہ کی تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، خاص طور پر بیرات اور جیجروکاسترا جیسے مقامات، جو یونیسکو کے عالمی ورثے میں بھی شامل ہیں۔
کمیونسٹ حکمرانی کے دوران البانیہ کئی عشروں تک دنیا سے الگ تھلگ رہا اور حالیہ جائزے بتاتے ہیں کہ اب یورپ ان کا رول ماڈل ہے۔ یورپی یونین نے گزشتہ برس البانیہ کو یورپی یونین کی مکمل رکنیت دینے کے لیے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔
یہاں کے مقامی کھانوں میں زیادہ تر سمندری غذا شامل ہے۔ پنیر کے ساتھ ساتھ پیسٹریاں اور مینڈک کی ٹانگیں اس بلقان ریاست کے روایتی کھانوں میں سے ایک ہیں۔
لیوینڈر سے لے کر لوریل تک، ہربل چائے کی متعدد اقسام سے لے کر تیل کی مختلف اقسام تک، البانیہ خام مال کے حوالے سے یورپ کی سب سے بڑی منڈی ہے۔
گزشتہ تین عشروں کے دوران البانیہ کے تقریبا سترہ لاکھ افراد اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں اور یہ موجودہ آبادی کا تقریبا نصف حصہ بنتا ہے۔
اس ملک میں کمیونسٹ ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ سن انیس سو اکانوے میں ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس کا شمار یورپ کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں ماہانہ تنخواہ کی اوسط سب سے کم ہے۔
کمیونسٹ دور حکومت کے دوران اس ملک میں مذہب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن اس پابندی کے باوجود عوام کے دلوں سے مذہب کی محبت ختم نہیں ہوئی۔ آج بھی یہاں کی نصف سے زائد آبادی اپنی شناخت بطور مسلم کرواتی ہے۔
مجموعی آبادی کا تقریبا ایک چوتھائی حصہ کیتھولک یا پھر آرتھوڈکس مسیحی ہے۔ تاہم عقیدہ جو بھی ہو، اس ملک کے عوام خوش اسلوبی سے مل جل کر زندگی گزار رہے ہیں۔