’الاحرار الشام شام میں بڑا کردار ادا کر سکتا ہے‘
22 ستمبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی، تاہم گزشتہ برس ایک بم دھماکے میں ایک ہی جھٹکے میں اس گروہ کے تقریباﹰ تمام اہم رہنما مارے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد کہا جا رہا تھا کہ شاید اب یہ گروہ کبھی سر نہ اٹھا سکے، تاہم اس عسکری گروپ نے فوراﹰ ہی اپنے نئے کمانڈر کے نام کا اعلان کی اور دوبارہ طاقت پکڑنے لگا اور چند ہی ماہ میں اس نے دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ اتحاد کر کے اپنے قریب دو ہزار جنگجوؤں کے ساتھ ادلِب شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہ گروپ اب اس علاقے میں سب سے زیادہ اثرورسوخ کا حامل ہے اور شدت پسندوں کے فتح آرمی نامی عسکری اتحاد میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس اتحاد میں القاعدہ کا شامی بازو النصرہ فرنٹ بھی شامل ہے۔ اب اس گروہ کے عزائم اور حوصلے اور بھی بلند ہو چکے ہیں۔
ترکی کی زبردست حمایت کے حامل احرار الشام نامی یہ گروہ شام کی چار سال سے جاری خانہ جنگی میں اب انتہائی اہمیت کا حامل بن چکا ہے اور اسلامک اسٹیٹ کو چھوڑ کر دیگر شدت پسندوں گروہوں کے ساتھ مل کر شامی مستقبل میں بڑے کردار کی جانب بڑھ رہا ہے۔
اس گروہ کے جنگجو باب الحوا نامی اُس سرحدی کراسنگ کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں، جو اب ترکی اور شام کے درمیان واحد قانونی سرحدی کراسنگ ہے۔ اس کے علاوہ حلب اور ادلِب میں بھی یہ گروہ انتہائی مضبوط ہے۔
روئٹرز کے مطابق احرار الشام جو عسکری کے علاوہ سیاسی بازو کا حامل بھی ہے، شامی تنازعے کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ احرار الشام کا کوئی مرکزی ڈھانچہ نہیں ہے، اس لیے یہ گروپ دیگر گروہوں کے ساتھ الحاق کی صلاحیت رکھتا ہے اور مسقبل کی امن بات چیت میں اپنی آواز سامنے رکھ سکتا ہے۔
روئٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ احرار الشام کی قیادت شام پر حکومت کے حوالے سے عزائم نہیں رکھتی، تاہم یہ بات بارہا کہہ چکی ہے کہ وہ شامی مسئلے کا حل چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں اس گروہ کے نمائندے شامی حکومت اور لبنان میں سرگرم بشارالاسد کے حامی شیعہ گروہ حزب اللہ کے ساتھ مذاکرات میں بھی مصروف رہے ہیں، جس میں حکومت کے زیرقبضہ شیعہ اکثریتی علاقوں کے مستقبل کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔ یہ شیعہ علاقے ادلب صوبے میں باغیوں کے زیرمحاصرہ ہیں۔ یہ بات چیت دو مرتبہ ناکامی کا شکار ہو چکی ہے، تاہم ان مذکرات کا ترکی اور ایران کی حمایت حاصل ہے۔