اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کانفرنس، ایران شرکت نہیں کر رہا
30 اکتوبر 2017ابوظہبی سے پیر تیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ایرانی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کا کوئی بھی وفد اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی اس جوہری توانائی کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا اور اسی لیے آج اس کانفرنس کے موقع پر ہال میں ایرانی وفد کے ارکان کے لیے مخصوص نشستیں خالی رہیں۔
ٹرمپ اکیلے ایرانی جوہری ڈیل ختم کر سکتے ہیں؟ ردعمل اور جائزہ
جوہری ڈیل امریکی مفاد میں نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی پابندی کے باوجود ایران نےبیلسٹک میزائل تجربہ کرلیا
کانفرنس کے منتظمین نے بتایا کہ ایرانی مندوبین نے اس اجتماع سے اپنے خطاب کا پروگرام بھی منسوخ کر دیا ہے۔ جوہری توانائی کے موضوع پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس بین الاقوامی اجتماع میں تہران حکومت کے کسی بھی وفد کی عدم شرکت کے بارے میں آخری خبریں آنے تک ایرانی حکام کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔
ویانا میں ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ یوکیا امانو نے، جنہوں نے ابھی کل اتوار انتیس اکتوبر کے روز ہی تہران کا دورہ کیا تھا، ابوظہبی میں اس کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں ایرانی عدم شرکت کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔
متحدہ عرب امارات اور اس کے ہمسایہ عرب ملک سعودی عرب کو، جو خطے میں ایران کا دیرینہ حریف سمجھا جاتا ہے، ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین 2015ء میں طے پانے والے اس جوہری معاہدے کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات ہیں، جس کے تحت تہران کی طرف سے اس کے جوہری پروگرام کو بہت محدود کر دینے کے عوض ایران پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں اٹھانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایران میزائل پروگرام پر سمجھوتہ نہیں کرے گا، حسن روحانی
امریکی پالیسیوں کے جواب میں ڈیل سے علیحدہ ہو سکتے ہیں، ایران
نئی امریکی پابندیاں جوہری معاہدے کی خلاف ورزی ہیں، ایران
اس معاہدے پر کئی بڑی عالمی طاقتوں نے دستخط کیے تھے، جن میں امریکا بھی شامل تھا۔ تاہم موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جوہری معاہدے کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اسے دوبارہ غور کے لیے امریکی کانگریس کو بھجوا دیا ہے۔
جرمنی سمیت کئی یورپی ملک، جنہوں نے اس جوہری ڈیل کے لیے بہت محنت کی تھی، اس امر کے خلاف ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ بین الاقوامی طاقتوں کے تہران کے ساتھ اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک ایسا کیا تو نہیں لیکن وہ کئی بار تہران پر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ تہران اس معاہدے کی مختلف شقوں کے تحت خود پر عائد ہونے والی ذمے داریوں پر ابھی تک عمل نہیں کر رہا۔ تہران حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔