1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایغوروں کے خلاف چین کے رویے پر درجنوں ملکوں کا اظہار تشویش

15 جون 2022

اقوام متحدہ میں47 ملکوں نے چین میں نسلی ایغور اقلیتوں کے مبینہ استحصال پر تشویش ظاہر کی۔ اور وہاں کی صورت حال کے متعلق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی سربراہ کی رپورٹ جلد از جلد شائع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4CiOi
Türkei Protest gegen Uiguren-Politik in China
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کی جنیوا میں منگل کے روز ہونے والی میٹنگ کے دوران ڈچ سفیر پال بیکرز نے کہا، "سنکیانگ میں ایغور خود مختار خطے میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال پر ہمیں سخت تشویش ہے۔"

سینتالیس ملکوں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے بیکرز نے متعدد ''معتبر رپورٹوں" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دس لاکھ سے زائد ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کو کیمپوں میں جبراً قید میں رکھا گیا ہے۔ بیجنگ نے ان کیمپوں اعتراف کیا ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ یہ 'پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز'ہیں اور 'انتہا پسندی' سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "بڑے پیمانے پر لوگوں کی نگرانی، ایغوروں اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کے ساتھ تفریق آمیز سلوک کی خبریں بھی ہیں۔"

اس مشترکہ بیان میں "حکا م کے ذریعہ اذیت رسانی اور دیگر ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک، توہین آمیز سزائیں، جبراً نس بندی، جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد، جبری مزدوری اور بچوں کو ان کے والدین سے زبردستی الگ کردینے کے واقعات" پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

China Xinjiang | mutmaßliches Internierungslager für Uiguren
تصویر: GREG BAKER/AFP/Getty Images

'چین تفتیش کاروں کو سنکیانگ جانے کی اجازت دے'

بیکرز نے کہا کہ اس صورت حال سے فکر مند ممالک " چین سے ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان کا ازالہ کرے"اور "مسلم ایغوروں اور اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کی جبراً قید کا سلسلہ بند کرے۔"

اس گروپ نے بیجنگ سے اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں اور ماہرین کو سنکیانگ میں زمینی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے''بامعنی، بلاروک ٹوک اور آزادنہ رسائی" فراہم کرنے کی بھی اپیل کی۔

خیال رہے کہ مہینوں کے اصرار کے بعد بیجنگ نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمشنر میشیل بیچلیٹ کو بالآخر سنکیانگ تک رسائی کی اجازت دے دی تھی۔

 پچھلے 17 برسوں میں اقوام متحدہ کے کسی انسانی حقوق کمشنر کا چین کا یہ پہلا دورہ تھا۔ تاہم چین کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف زور دار آواز میں بولنے سے گریز کرنے پر بیچلیٹ کوسخت نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔ سمجھا جاتا ہے کہ بیچلیٹ کو چینی حکام کی مرضی کے مطابق اپنا دورہ کرنا پڑا۔

منگل کے روز جاری مشترکہ بیان میں بیچلیٹ کے دورے پر چینی حکام کی جانب سے عائد رکاوٹوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ وسیع پیمانے پر دورے کی اجازت دینے کی اپیل کی گئی۔

China Polizei in Xinjiang
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

چین کا ردعمل

چین کے سفیر چین زو نے اس مشترکہ بیان پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے نیدر لینڈ اور بیان پر دستخط کرنے والے دیگر ملکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان چین پر"جھوٹ اور افواہوں کا حملہ" ہے۔ انہوں نے کہا "ہم ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔" اور اس بیان پر دستخط کرنے والے ملکو ں کو"منافق" قرارد یتے ہوئے کہا یہ "سیاسی ساز باز" ہے۔

انہوں نے بیچلیٹ کے دورے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ"اس سے انسانی حقوق کی ترقی کے لیے چین کے اقدامات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی ہے۔"

منگل کے روز جاری مشترکہ بیان میں دورے کی رپورٹ کو فوراًجاری کرنے کی اپیل کی گئی اورکہا گیا ہے کہ بیچلیٹ مزید معلومات فراہم کریں۔

 ج ا/ص ز  (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید