اقوام متحدہ میں فلسطینی اپیل پر امریکی مؤقف
11 نومبر 2010محمود عباس کے ایک ترجمان نبیل ابو رودینا کے مطابق فلسطینی صدر نے اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے ترجمان کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اقوام متحدہ سے سلامتی کونسل میں غرب اُردن اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے وسیع تر منصوبے کے مسئلے پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخواست کریں۔ فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا یہ فیصلہ اسرائیل کی جانب سے چند روز قبل مشرقی یروشلم کے عرب علاقے میں 1300 نئے مکانات کی تعمیر کے حتمی منصوبے سے متعلق دستاویز ات کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد کیا گیا۔
اسرائیل کے اس اعلان پر امریکی صدر باراک اوباما سمیت عالمی برادری کی طرف سے مشترکہ طور پر شدید مذمت کی گئی۔ ساتھ ہی فلسطینیوں کی طرف سے رد عمل کے طور پر عالمی برادری سے اپیل کی گئی کہ وہ فوری طور سے فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرے۔ فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے تازہ یکطرفہ اقدام کے جواب میں چار جون 1967 کو مقرر کردہ سرحدوں کے تعین کا احترام کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا جائے۔
امریکی کوششوں کے باوجود امن مذاکرات کا سلسلہ ستمبر میں ایک بار پھر اُس وقت جمود کا شکار ہوا تھا جب مغربی اُردن کے علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر لگی عارضی پابندی کی مدت ختم ہو گئی تھی اور اسرائیل نے اس مدت میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔ اُس وقت سے فلسطینی مذاکرات جاری رکھنے سے انکار کر رہے ہیں۔
امریکہ کی طرف سے اسرائیل پر جمود کے شکار مذاکرات کو دوبارہ عمل میں لانے اور اس کے لئے یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے پر دوبارہ پابندی عائد کرنے کے لئے غیر معمولی دباؤ کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے۔ ایسی صورتحال میں فلسطینیوں نے فوری طور سے آزاد فلسطینی ریاست کو عالمی برادری سے تسلیم کروانے کے لئے اقوام متحدہ کا سہارا لینے کی دھمکیاں دیں۔
اسرائیل اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ اسرائیلی کابینہ کے سیکریٹری Zvi Hauser نے اسرائیل کے سرکاری ریڈیو کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’مشرقی یروشلم میں بستیوں کی تعمیر کا منصوبہ نہ کبھی جمود کا شکار تھا، نہ رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یروشلم میں یہ تعمیراتی منصوبہ اُسی طرح جاری رہے گا، جس طرح تل ابیب میں جاری ہے۔‘
دریں اثناء اسرائیل کے وزیر داخلہ Eli Yishai نے کہا ہے کہ بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے کیاجانے والا اعلان قواعد کے مطابق ہے اور اس پر عمل درآمد میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تازہ کشیدگی سامنے آنے پر اسرائیل کے وزیر اعظم ہاؤس سے جاری کئے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یروشلم ایک بستی نہیں ہے بلکہ اسرائیل کا دارالحکومت ہے اور اسرائیل سمجھتا ہے کہ بستیوں کی تعمیر اور مذاکرات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
دریں اثناء فلسطین کے دو حریف سیاسی دھڑے فتح اور حماس نے آئندہ ہفتے عید الاضحٰی کے تہوار کے بعد مفاہمتی مذاکرات عمل میں لانے پر اتفاق کیا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل