1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادی مفادات چین اور تائیوان کو قریب لا سکتے ہیں

امتیاز احمد5 مارچ 2015

چینی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ تائیوان کے ساتھ بہتر اقتصادی تعلقات کے لیے پُر امید ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایک جزیرے کو چینی ملکیت قرار دینا ایک تاریخی موڑ فیصلہ تھا، جسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/1ElL7
China / Volkskongress / Li Keqiang
تصویر: Reuters

چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ نے یہ بات نیشنل پیپلز کانگریس کا سالانہ گیارہ روزہ اجلاس کے موقع پر کہی ہے۔ آبنائے تائیوان میں بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیاں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بہتری کا باعث بن رہی ہیں۔

گزشتہ چھ عشروں کے بعد ان تبدیل ہوتی ہوئی پالسیوں کو چین کے لیے دوستانہ رویہ رکھنے والے تائیوان کے صدر ما ینگ جو کی حمایت بھی حاصل ہے۔ لیکن تائیوان کی برسر اقتدار جماعت نیشنلسٹ پارٹی نے حالیہ مقامی انتخابات کے دوران یہ کہتے ہوئے رکاوٹ کھڑی کر دی تھی کہ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کے معاملے پر ایک ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد تائیوان کے طالبعلموں اور سرگرم کارکنوں نے کئی ہفتے تک پارلیمان کے باہر احتجاج جاری رکھا تاکہ چین کے ساتھ کسی بھی قسم کا تجارتی معاہدہ نہ ہو۔

چینی وزیر اعظم نے اپنے پالیسی ساز خطاب کے دوران تائیوان میں ہونے والے چین مخالف احتجاجی مظاہروں یا پھر تائیوان کے انتخابات پر تو کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم تائیوان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار ضرور کیا ہے، ’’ہم آبنائے تائیوان کے اطراف کے مابین مذاکرات کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔ آبنائے تائیوان میں اقتصادی انضمام سے باہمی فائدہ ہوگا۔‘‘

تائیوان بین الاقوامی سطح پر بتدریج اپنی شناخت قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ درجنوں جزائر پر مشتمل تائیوان کی حیثیت تاریخی ہے۔ سن 1949 میں چینی سرزمین پر اس ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل پیپلز پارٹی ’کومنتانگ‘ کی حکومت تھی۔ اس وقت کی برسر اقتدار جماعت ’کومنتانگ‘ نے چین کے کمیونسٹوں کے خلاف خانہ جنگی کا آغاز کر دیا تھا۔ اس خانہ جنگی میں فتح کمیونسٹوں کو ہوئی تھی جبکہ ’کومنتانگ‘ کے حامی فرار ہو کر تائیوان کے جزائر پر چلے گئے تھے۔ اس وقت سے چین ( عوامی جمہوریہ چین) اور تائیوان (جمہوریہ چین) کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں۔ تاہم چین کے صدر شی جن پنگ نے سن دوہزار تیرہ میں کہا تھا کہ تائیوان مسئلے کے حل کے لیے ہمیشہ انتظار نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری جانب اس گیارہ روزہ اجلاس کے آغاز پر چینی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سال اقتصادی ترقی کی رفتار ماضی کے مقابلے میں سست رہے گی اور نمو کی شرح محض تقریباً سات فیصد تک ہو جائے گی۔ چین میں، جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، گزشتہ سال ہی اقتصادی ترقی کی شرح 7.4 فیصد رہی تھی، جو کہ گزشتہ چوبیس برسوں کے دوران چین میں کم ترین شرح تھی۔

اقتصادی شعبے میں نمو کی اس کمزور شرح کے باوجود بیجنگ حکومت نے دفاعی بجٹ میں دس فیصد سے زیادہ کا اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مشرقی اور جنوبی بحیرہٴ چین میں علاقائی ملکیت کے تنازعات کے باعث چین کے ہمسا یہ ممالک بیجنگ حکومت کی طرف سے بڑھتی ہوئی دفاعی سرگرمیوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔