1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادی اصلاحات کا فیصلہ ناقابل تنسیخ، بھارتی وزیر تجارت

9 نومبر 2012

بھارتی وزیر تجارت آنند شرما نے کہا ہے کہ نئی دہلی حکومت اپنے متنازعہ ہو جانے والے اقتصادی اصلاحات کے پروگرام پر کاربند رہے گی اور ریٹیل ٹریڈنگ اور دیگر شعبوں کو وسیع تر بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/16fqu
تصویر: AP

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انہوں نے یہ بات جمعرات کو ملکی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک بین الاقوامی مالیاتی کانفرنس کے مندوبین سے اپنے خطاب میں کہی۔ بھارت سے متعلق عالمی اقتصادی فورم کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے آنند شرما نے کہا کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حکومت نے جو فیصلے کیے ہیں، وہ ’ناقابل تنسیخ ہیں اور پتھر پر لکھے کو مٹایا نہیں جا سکتا‘۔

Manmohan Singh
وزیر اعظم من موہن سنگھتصویر: AFP/Getty Images

بھارت میں موجودہ مخلوط حکومت نے ستمبر کے مہینے سے اب تک ریٹیل ٹریڈنگ، براڈ کاسٹنگ اور شہری ہوا بازی سمیت کئی اقتصادی شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق متعدد نئے قوانین منظور کیے ہیں جن کی ابھی تک اندرون ملک مخالفت جاری ہے۔ اسی وجہ سے ایک علاقائی اتحادی پارٹی نے سنگھ حکومت سے اپنی علیحدگی کا اعلان بھی کر دیا تھا اور سنگھ حکومت پارلیمان میں ایک اقلیتی حکومت بن کر رہ گئی ہے۔

کانگریس پارٹی کی سربراہی میں سنگھ حکومت یہ فیصلہ بھی کر چکی ہے کہ ملک میں سرمائے کی ناکافی دستیابی کے شکار انشورنس اور پینشن کے شعبوں کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اس طرح کھولا جائے گا کہ غیر ملکی ادارے ایسی مقامی کمپنیوں کے کافی زیادہ ملکیتی حقوق کے مالک بن سکیں گے۔ اس کے لیے تاہم حکومت کو پارلیمانی منظوری حاصل کرنا ہو گی جو اس وجہ سے کچھ مشکل کام ہو گا کہ بھارتی پارلیمان منتخب ارکان کے مختلف چھوٹے بڑے سیاسی گروپوں میں بٹی ہوئی ہے۔

بھارت سے متعلق عالمی اقتصادی فورم کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آنند شرما نے ملکی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ ’وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر‘ مرکزی حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کریں جو زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ ملک میں لانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

Mamta Bannerjee
سنگھ حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والی جماعت ترنمول کانگریس کی ‌خاتون رہنما ممتا بینرجیتصویر: DW

بھارت میں موجودہ مخلوط حکومت کی متنازعہ اقتصادی اصلاحات کا پروگرام اب تک اس لیے کافی مشکل ثابت ہوا ہے کہ سنگھ حکومت نہ صرف اپنی ایک اہم علاقائی اتحادی جماعت کی تائید سے محروم ہو چکی ہے بلکہ اسی مہینے جب پارلیمان کا اجلاس دوبارہ شروع ہو گا تو حکومت سے علیحدہ ہو جانے والی شعلہ بیان خاتون رہنما ممتا بینرجی کی ترنمول کانگریس پارٹی اپنی سیاسی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کر سکتی ہے۔

نئی دہلی سے آمدہ دیگر رپورٹوں کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان اصلاحات پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک میں مستقبل قریب میں کوئی بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آ سکیں گی۔

بھارت کی کُل 29 یونین ریاستوں میں سے اب تک صرف نو ریاستوں نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی اپنی مقامی منڈیوں کو ریٹیل ٹریڈنگ کے شعبے میں بڑی بڑی غیر ملکی سپر مارکیٹوں کے لیے کھولیں گی۔ باقی بیس ریاستوں میں یہ خدشات کافی زیادہ ہیں کہ غیر ملکی سپر مارکیٹیں اپنی مقامی شاخوں کے ساتھ تجارتی منظر نامے پر حاوی ہوتے ہوئے مقامی پرچون فروشوں اور چھوٹے تاجروں کے لیے بہت زیادہ کاروباری نقصانات کا سبب بنیں گی۔

mm/ng (AFP)