1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

'اقتدار کی تبدیلی کوئی نہیں روک سکتا' جو بائیڈن

11 نومبر 2020

نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کی اپنی شکست تسلیم نہ کرنے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ''شرمندگی'' سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شکست تسلیم نہ کرنے سے اقتدار کی منتقلی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑیگا۔

https://p.dw.com/p/3l7fj
USA | Joe Biden designierter Präsident | Rede in Wilmington
تصویر: Carolyn Kaster/AP Photo/picture alliance

امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم نہ کرنے کا اثر یہ ہوگا کہ تاریخ میں انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جائیگا۔ صحافیوں نے ان سے جب یہ سوال پوچھا کہ آخر وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رویے پر کیا کہیں گے کہ تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں وہ اپنی شکست تسلیم کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا، ''بے تکلفی سے کہوں تو، میں سوچتا ہوں یہ ایک بڑی شرمندگی کی بات ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''میں اسے تدبر کیسے کہہ سکتا ہوں۔ میرے خیال سے بطور صدر اپنے پیچھے وہ جو ورثہ چھوڑ رہے ہیں اس کے لیے یہ قطعی درست نہیں ہوگا۔'' اس موقع پر جو بائیڈن نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ ٹرمپ کے تعاون کے بغیر اقتدار یا انتظامیہ کی منتقلی میں کوئی عملی پریشانی پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ منتقلی کا عمل ''بہت اچھی طرح جاری ہے اور اسے کوئی بھی شئے روک نہیں سکتی۔''

امریکا میں مکمل اور باقاعدہ طور پر اقتدار کی منتقلی کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہوتا جب تک وفاقی انتظامیہ کا محکمہ 'جنرل سروس ایڈمنسٹریشن' اس بات کا تعین نہیں کر لیتا کہ عام انتخابات میں کس امیدوار کو کامیابی ملی ہے۔ چونکہ صدر ٹرمپ کی ٹیم نے بعض ریاستوں میں انتخابی نتائج کو عدالت میں چیلنج کیا ہے، اس لیے کامیاب امیدوار کی ابھی تک باضابطہ تصدیق بھی نہیں کی گئی ہے۔

امریکی الیکشن، صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی؟

اس کا مطلب یہ ہوا کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی سکیورٹی خطرات سے متعلق جو یومیہ کلاسیفائیڈ بریفنگ ہوتی ہیں اس سے ابھی انہیں آگاہ نہیں رکھا جا رہا ہے۔

امریکا کی واپسی

جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ سکیورٹی سے متعلق یومیہ بریفنگ کام کی چیز ہے تاہم یہ اتنی ضروری بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''کلاسیفائیڈ معلومات تک رسائی قابل استعمال ہوتی ہے لیکن میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس سے متعلق کوئی فیصلہ کر سکوں۔ جیسے کہ میں نے کہا، ایک وقت میں ایک ہی صدر ہوتا ہے، اور وہ 20 جنوری تک صدر رہیں گے۔ اس معلومات تک رسائی بہتر ہوتی لیکن اتنی اہم بھی نہیں ہے۔''

انہوں نے کہا، ''ہم وہی کریں گے جو ہم کرتے رہنے کی بات کرتے رہیں، اگر وہ اپنی شکست تسلیم کر کے ہمیں فاتح مانتے جو کہ ہم ہیں۔'' ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ اگر انہیں اس وقت ٹرمپ سے کچھ کہنا ہو تو کیا کہیں گے، اس پر بائیڈن نے جواب دیا، ''مسٹر صدر، آپ سے بات چیت کرنے کا منتظر ہوں۔''

جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اس دوران کئی بیرونی ممالک کے رہنماؤں سے ان کی بات چیت ہوئی ہے جس میں انہوں نے انہیں بتایا کہ، ''امریکا واپس آگیا ہے۔ ہم کھیل میں واپس ہو رہے ہیں۔ امریکا تن تنہا نہیں ہے۔''

ٹرمپ کے اقتدار کی بھی دوبارہ واپسی

دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ ان کا محکمہ اس انداز سے کام کر رہا ہے جیسے ٹرمپ دوبارہ انتخاب میں کامیاب ہوگئے ہوں۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران پومپیو نے کہا، '' ہموار طریقے سے ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کی منتقلی ہوگی۔'' ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو امریکی وزارت خارجہ کی انتظامی منتقلی پر پورا اعتماد ہونا چاہیے۔

امریکا کے بیشتر میڈیا اداروں نے گزشتہ سنیچر کو ہی جو بائیڈن کی کامیابی کا اعلان کر دیا تھا۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے بائیڈن کو امریکا کا نو منتخب صدر بھی تسلیم کر لیا ہے اور ان سے فون پر بات بھی کی ہے۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

امریکی صدارتی نظام، کس ووٹر کا ووٹ زیادہ اہم ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں