افغان مہاجرین کی واپسی، مہاجر بچوں کے سکول بھی بند
26 اگست 2016افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے ساتھ ہی پشاور اور اس کے نواحی علاقوں میں قائم پچیس سے زائد تعلیمی ادارے بند کیے جا چکے ہیں۔ تدریسی شعبے سے وابستہ اہلکاروں کے مطابق آئندہ چند روز میں بہت سے تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند کر دیے جائیں گے۔
ایسے زیادہ تر اسکولوں میں نیا تعلیمی سال یکم ستمبر سے شروع ہوتا ہے تاہم ان اداروں کے سربراہان کے مطابق مہاجرین کی وطن واپسی کی وجہ سے بچوں نے داخلوں کے لیے رجوع نہیں کیا جبکہ امتحانات سے فارغ ہونے والے بچے ہی سکول چھوڑنے کے سرٹیفیکیٹ کے حصول کے لیے رابطے میں ہیں۔
پشاور کے علاقہ تہکال میں واقع ایک سکول کے سربراہ عبدالنبی نے بتایا، ’’جب والدین واپس جا رہے ہیں تو وہ بچوں کو یہاں کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ واپس وطن جانے والے زیادہ تر والدین بچوں کے سرٹیفیکیٹس کے حصول کی خاطر ابھی تک یہاں موجود تھے۔ امتحانات کے نتائج آتے ہی وہ بھی یہاں سے واپس جا رہے ہیں۔ تدریسی عملے کو بھی فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ سرٹیفیکیٹس کی فراہمی کے لیے کچھ اہلکار موجود ہیں۔ یہ کام ایک دو دنوں میں مکمل ہو جائے گا، جس کے بعد یہ سکول بھی بند کر دیا جائے گا۔‘‘
عبدالنبی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آئندہ برس کے دوران مہاجر بچوں کے لیے مشکل سے ایک آدھ سکول ہی فعال ہو گا کیونکہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی سال کے آخر میں واپس چلے جائیں گے اور اس صورتحال میں پاکستان میں مقیم افغان مہاجر بچوں کے لیے خصوصی تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
پشاور میں لیسہ بوعلی سینا نامی کالج بھی رواں ہفتے ہی بند کر دیا گیا۔ اس کالج میں ساڑھے چار سو طلبا و طالبات زیر تعلیم تھے، جنہوں نے حال میں افغان تعلیمی نظام کے مطابق گریجویشن تک اپنی تعلیم مکمل کی۔ یہ اسٹوڈنٹس بھی اپنی اسناد حاصل کرنے کے انتظار میں تھے۔
ایک طالب علم احمداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ ہم واپس کابل جا رہے ہیں۔ ہم دو بھائی اور ایک بہن یہاں پڑھتے تھے۔ باقی گھر والے جاچکے ہیں جبکہ ہمیں صرف اپنے رزلٹ کا انتظار تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب وہ کابل میں داخلہ لیں گے اور اپنی پڑھائی مکمل کریں گے۔
پاکستان میں افغان نجی سکول ایسوسی ایشن کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجر بچوں کے لیے دو سو ساٹھ سکول قائم کئے گئے تھے، جن میں ساٹھ ہزار سے زائد بچے زیر تعلیم تھے۔ ان میں ڈیڑھ سو سکول پختونخوا میں تھے
ایسوسی ایشن کے مطابق کیمپوں میں قائم سکولوں میں دہشت گردوں کے پناہ لینے کی اطلاع کے بعد انہیں بند کر دیا گیا تھا جبکہ شہری علاقوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری تھا تاہم اب افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس جا رہے ہیں تو ان سکولوں میں زیادہ تر بند ہوچکے ہیں جبکہ گریجویٹ لیول کے سکول یکم ستمبر سے بند ہوجائیں گے۔
دارالحکومت پشاور کے مقامی نجی سکولوں میں اٹھائیس ہزار افغان طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ رضاکارانہ واپسی کے ساتھ ہی یہ بچے بھی سکول چھوڑیں گے۔ اس طرح ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجر بچے پختونخوا کے سرکاری سکولوں میں بھی زیر تعلیم ہیں جو سکول کھلنے کے بعد واپس جاتے وقت سکول چھوڑیں گے۔
جب اس سلسلے میں خیبر پختونخوا کے آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر خالد خان ملک سے ڈی ڈبلیو نے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’صوبائی حکومت بلاامتیاز افغان بچوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ آج تک کسی بھی سکول میں افغان بچوں کے داخلے سے انکار نہیں کیا گیا۔‘‘
خالد خان کے بقول، ’’صوبائی حکومت افغان مہاجر بچوں کو بھی وہ تمام سہولیات فراہم کر رہی ہے، جو پاکستانی بچوں کے لیے ہیں۔ انہیں مفت کتابیں اور یونیفارم دی جاتی ہے جبکہ ان کی پڑھائی پر بھی یکساں توجہ دی جا رہی ہے اور اب حکومتی پالیسی کے مطابق اگر افغان مہاجرین کو نکالا جا رہا ہے تو یقیینی طور پر ان کے بچے بھی تعلیم کی اس سہولت سے محروم ہو جائیں گے۔‘‘
ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی آنے کے بعد ایک اور مرکز بھی قائم کر دیا ہے جبکہ پہلے سے موجود چمکنی مرکز میں عملے اور ان کے اوقات کار میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق چمکنی سینٹر سے اب تک ساٹھ ہزار سے زیادہ افغان رضاکارانہ طور پر واپس جا چکے ہیں۔
دوسری طرف کوئٹہ کی پاک افغان سرحد چمن کی بندش کی وجہ سے پختونخوا کے راستے طور خم سرحد پر افغانستان واپس جانے والے مہاجرین کا رش بڑھ گیا ہے۔ یو این ایچ سی آر کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ رضاکارانہ طور پر واپس جانے والوں کے لیے ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے اور اگر افغان مہاجرین اس پر رابطہ کر کے وقت لے لیں تو انہیں وطن واپسی کے عمل مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘