افغان مہاجرین کی واپسی، پاکستانی پالیسی پر تنقید
18 اگست 2016دوسری جانب پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں پاکستانی افغانستان منتقل ہوئے ہیں، جو حالیہ اقدامات سے پریشان ہیں۔ پاکستان سے نکالے جانے والے افغان مہاجرین میں غم و غصہ پایا جاتا ہے جسے کم کرنے کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے عمائدین متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
مہمند ایجنسی میں افغان سرحد سے ملحقہ علاقہ کوڈا خیل سے تعلق رکھنے والے تاجر اور سماجی کارکن حاجی نادر منان کوڈا خیل اس بارے میں کہتے ہیں، ’’پاکستان نے چالیس سال تک افغانوں کو پناہ دی اور ہر قسم کی سہولیات فراہم کیں لیکن جس طریقے سے انہیں نکالا جارہا ہے اس سے اس قربانی کو ضائع کیا جارہا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’کے لیے دونوں ممالک قبائلی علاقوں کے مشران پر مشتمل کمیٹی بنائیں جو افغان مہاجرین اور دیگر مسائل کے حل کے لیے لائحہ عمل طے کرسکے۔ موجودہ پالیسی سے دونوں بھائیوں کو دشمن بناکر پیش کیا جارہا ہے جس کا فائدہ دشمن اٹھا رہا ہے۔ اس کمیٹی سے رائے عامہ ہموار کرنے کا کام لیا جائے۔‘‘
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ افغانستان چلے گئے تھے۔ ان پر ان پالیسیوں کے کیا اثرات ہیں؟ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ابراہیم خان شنواری کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’پاکستان سے جانے والے افغان سکیورٹی اداروں کے رویے کا شکوہ کررہے ہیں۔ وہاں معمولی بات کو بھی بڑھا چڑھا کر منفی پرپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ لیکن ان حالات کے باوجود افغانستان کے سرحدی صوبوں کا تمام تر دار ومدار پاکستان پر ہے۔ بڑے کاروباری لوگ سب کچھ بھلانے کے لیے تیار ہیں لیکن جو بے عزتی کی جا رہی ہے، اسے بھول جانے کو تیار نہیں۔ افغانستان میں قیام پذیر پاکستانیوں نے ابھی تک کوئی شکایت نہیں کی لیکن اگر پالیسی یہی رہی تو اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
افغان مہاجرین کے خلاف جاری اس مہم کے دوران یہاں کروڑوں کی سرمایہ کاری کرنے والے بھی اپنا سامان سمیٹ رہے ہیں۔ پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے ڈائریکٹر ضیاء الحق سرحدی نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’چالیس سال تک افغان پاکستانی معیشت پر بوجھ تھے لیکن افغان تاجروں نے یہاں کروڑوں کی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ اب وہ حالات کی وجہ سے واپس جانے کا سوچ رہے ہیں۔ حکومت سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ پاکستانی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان اور وہاں کے راستے وسط ایشیا کے ساتھ تجارت کرنے والے پاکستانی تاجروں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح وہاں رہائش اختیار کرنے والوں کو یقیناﹰ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغانستان کے ساتھ صدیوں پر محیط رشتہ ہے، اس کے لیے دونوں ممالک کے حکمرانوں کو مل بیٹھ کر کام کرنا چاہیے جو پالیساں چل رہی ہیں اس سے تجارت میں اضافہ کا امکان نہیں ہے۔
صوبائی حکومت کی ہدایت پر خیبر پختونخوا میں قیام پذیر غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے لیکن جہاں حکومت میں شامل اتحادی اس اقدام کے خلاف ہیں وہاں حزب اختلاف بھی اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ جب اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے صوبائی سربراہ مشتاق احمد خان سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’جس انداز سے افغانوں کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے، یہ کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں حکومت افغان عوام کو خود دشمن بنا رہی ہے۔ افغانوں کا کیس دنیا میں اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ان کے ساتہ ہمارے لسانی، جغرافیائی، مذہبی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ دونوں ممالک کے حکمران ذاتی عناد کی بنا پر افغانوں کو پاکستان مخالف بنا رہے ہیں۔ دونوں کو مل بیٹھ کر اس کا حل نکالنا چاہیے جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، یہ قابل مذمت ہیں۔‘‘
جہاں پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں، وہاں افغانستان کے مختلف علاقوں میں بھی ہزاروں پاکستانی خاندان پناہ لے چکے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں قبائل افغانستان منتقل ہوئے تھے۔ حکومت نے ان لوگوں کی واپسی کے لیے اگست کے آخر تک کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔ اس دوران افغان صوبہ خوست کے گلان کیمپ میں رہائش پذیر کئی خاندان واپس آئے ہیں، لیکن ایک بڑی تعداد اب بھی وہاں موجود ہے۔
پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق ان لوگوں کی تعداد چالیس ہزار ہے، یو این ایچ سی آر کے مطابق یہ لوگ پچھتر ہزار ہیں جبکہ افغان حکومت ان کی تعداد ایک لاکہ بتاتی ہے۔
اسی طرح ایک بڑی تعداد میں پاکستانی افغانستان اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں، جو ان پالیسیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا نے افغان مہاجرین کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد ان کی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی ہے، جسے ہدایت کی گئی ہے کہ کسی بھی افغان کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے۔ تاہم ان پر واضح کیا گیا ہے کہ جس طرح وزیر اعلٰی بھی بغیر ویزے کے کابل نہیں جاسکتا اسی طرح یہاں رہنے والے افغان بھی رجسٹریشن کرائیں۔ اسی طرح پولیس کے خلاف شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے مخصوص ٹیلی فون نمبر فراہم کیے گئے ہیں جن پر کسی شکایت کی صورت میں کوئی بھی افغان رابطہ کرسکتا ہے۔