1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان حکام کے طالبان سے مذاکرات: سیزفائر پر اتفاق نہ ہو سکا

افسر اعوان4 مئی 2015

افغان طالبان کے نمائندوں اور افغان سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ اتوار کو ختم ہونے والے دو روزہ مذاکرات میں سیزفائر پر بھی غور وخوض کیا گیا مگر اس پر بھی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔

https://p.dw.com/p/1FJbi
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Karger

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنگ بندی پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ افغانستان میں امریکی فوج کی ہنوز موجودگی کا مسئلہ بنا۔ امریکا اور پاکستان کی جانب سے طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان بند دروازے کے پیچھے ہونے والے ان مذاکرات کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ قطر میں ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں عسکریت پسندی کے خاتمے کی کوشش تھا۔

قطر کی وزارت خارجہ کی میزبانی میں یہ غیر رسمی مذاکرات ایک ایسے وقت پر ہوئے جب افغانستان میں طالبان کی طرف سے موسم بہار کے آغاز کے بعد سے حکومتی فورسز کے خلاف حملوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ طالبان نے حال ہی میں افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں ایک بڑا حملہ کیا اور ان کے جنگجو صوبائی دارالحکومت قندوز کے مضافات تک پہنچ گئے۔

روئٹرز کے مطابق قطر کے درالحکومت دوحہ کے شمال میں واقع ایک ساحلی شہر الخور میں ہونے والے مذاکراتی دور میں شریک نمائندے بات چیت کے اختتام پر مسکراتے اور قہقہے لگاتے ہوئے باہر آئے مگر انہوں نے وہاں منتظر صحافیوں سے بات چیت سے انکار کر دیا۔

افغان حکومت کی طرف سے اس ملاقات کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا حالانکہ ملک کی اہم امن کونسل کے ایک رُکن نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایک وفد قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کرے گا۔

ان مذاکرت میں شریک طالبان کے ایک نمائندے نے اتوار کی شب روئٹرز کو بذریعہ ٹیلی فون بتایا کہ طالبان کے وفد کے آٹھ ارکان نے شیر محمد عباس ستانکزئی کی قیادت میں افغان حکام کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے۔ اس نمائندے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’مذاکرات شروع ہونے کے بعد ہمارے لوگوں نے اپنے مطالبات اور شرائط تحریری شکل میں پیش کیے۔۔۔ اس کے بعد مذاکرات شروع ہوئے اور افغان وفد اور قیوم کوچی، صدر اشرف غنی کے چچا نے مطالبہ کیا کہ ہم لوگ لڑائی ختم کر دیں اور سیز فائر کا اعلان کریں۔ انہوں نے ہمیں بھائی کہتے ہوئے مشورہ دیا کہ ہم افغانستان آئیں اور افغان آئین کی تابعداری کریں۔‘‘

طالبان کی طرف سے موسم بہار کے آغاز کے بعد سے حکومتی فورسز کے خلاف حملوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے
طالبان کی طرف سے موسم بہار کے آغاز کے بعد سے حکومتی فورسز کے خلاف حملوں میں اضافہ کر دیا گیا ہےتصویر: picture-alliance/epa/J. Karger

اس نمائندے کے مطابق طالبان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک لڑائی ترک نہیں کریں گے جب تک غیر ملکی فوجیں مکمل طور پر افغانستان سے نکل نہیں جاتیں۔ دوسری طرف حکومتی وفد کا کہنا تھا کہ زیادہ تر غیر ملکی فوجی واپس جا چکے ہیں اور اب وہاں محض ٹرینرز موجود ہیں، اگر طالبان اپنی کارروائیاں ختم کر دیتے ہیں تو وہ بھی واپس چلے جائیں گے۔

اتوار تین مئی کو ختم ہونے والے ان مذاکرات میں کوئی معاہدہ تو نہیں ہو سکا تاہم اس بات پر اتفاق ہوا کہ مذاکرات کا اگلا دور متحدہ عرب امارات میں منعقد کیا جائے جو ’ممکنہ طور پر آئندہ ماہ‘ ہو گا۔

روئٹرز کے مطابق افغان نمائندوں اور طالبان کے قریبی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قطر میں ہونے والے مذاکرات میں امریکا، چین اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے۔