1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان امن عمل، ’پاکستان کی نیت پر شک‘

عاطف بلوچ15 مارچ 2014

افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق ابھی تک پاکستانی جیلوں سے رہا کیے گئے 46 افغان طالبان میں سے کسی کے ساتھ بھی ان کی کوئی باقاعدہ ملاقات نہیں کرائی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BQCI
تصویر: Getty Images

خبر رساں ادارے روئٹرز نے افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ کونسل نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ جب بھی افغان طالبان کو رہا کرے تو انہیں پہلے مطلع کیا جائے تاکہ امن کونسل کے نمائندے ان افغان شہریوں سے ملاقات کر سکیں۔ اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اس اہلکار نے مزید کہا کہ پاکستانی حکام انہیں ایسے افغان طالبان کی رہائی کے بارے میں اس وقت بتاتے ہیں، جب وہ رہا ہو چکے ہوتے ہیں اور یہ کہ افغان امن کونسل کے ارکان کی ان طالبان سے باقاعدہ ملاقات کا کوئی بندوبست بھی نہیں کیا جاتا۔

حکومت پاکستان نے کابل کی درخواست پر 2012ء میں پاکستانی جیلوں میں قید افغان طالبان کو رہا کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بنائی گئی اعلیٰ افغان امن کونسل کا کہنا ہے کہ پاکستانی جیلوں سے ایسے قیدیوں کی رہائی سے افغان امن عمل میں مدد ملے گی۔ جب روئٹرز نے اس اہلکار سے پوچھا کہ آیا ان طالبان کی رہائی سے افغان امن عمل میں کوئی مدد ملی ہے، تو جواب تھا، ’’نہیں، یہ قیدی ہماری تحویل میں نہیں دیے گئے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہیں۔‘‘

Gefängnis Bagram Freilassung Kabul Afghanistan Archiv 2013
حکومت پاکستان نے کابل کی درخواست پر 2012ء میں افغان طالبان کو رہا کرنے کا عمل شروع کیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

یہ امر اہم ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء سے قبل طالبان باغی اپنے حملے تیز کر چکے ہیں۔ یہ عناصر افغانستان میں پانچ اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ انہوں ںے اعلان کر رکھا ہے کہ یہ انتخابی عمل امریکا کا تیار کردہ منصوبہ ہے اور اس میں جو بھی حصہ لے گا، اسے نشانہ بنایا جائے گا۔

افغان حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان سے جب بھی افغان طالبان کے کسی گروپ کو آزاد کیا جائے تو افغان امن کونسل کا ایک وفد اس موقع پر موجود ہونا چاہیے۔ لیکن افغان امن کونسل کے مطابق ایسی اپیلوں کے باوجود اسلام آباد انہیں طالبان کی رہائی کے بارے میں اس وقت خبر دیتا ہے جب وہ آزاد کر دیے گئے ہوتے ہیں۔ افغان حکومت کے مطابق یوں ایسے خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ شاید پاکستانی حکومت افغان امن عمل کے لیے نیک نیتی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ خیال رہے کہ کابل حکومت پاکستان پر الزامات عائد کرتی آئی ہے کہ وہ افغانستان میں کٹر نظریات کے حامل طالبان کی حمایت کرتی رہی ہے۔

افغان امن کونسل کے اس عہدیدار نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ تمام قیدیوں کو کابل حکومت کی تحویل میں دے دیا جائے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان امن کونسل کے نمائندوں کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ ان طالبان سے دوبدو ملاقات کریں اور انہیں بتائیں کہ کابل حکومت نے ان کی رہائی کے لیے کوششیں کی ہیں تاکہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچیں۔ اس اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان سے حال ہی میں رہا ہونے والے 46 افغان طالبان میں سے صرف پندرہ کے ساتھ ہی ان کا رابطہ ہو سکا ہے۔ انہوں ںے بتایا کہ یہ تمام پاکستان میں ہی ہیں۔ اس اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان حکومت نہیں جانتی کہ رہا کیے گئے باقی ماندہ طالبان کہاں ہیں لیکن انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ بھی پاکستان میں ہی ہوں گے۔

دوسری طرف پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق اس نے ان طالبان اور کابل حکام کے مابین ایک ملاقات کا بندوبست کرنے کی کوشش ضرور کی تھی تاہم یہ طالبان کابل حکومت سے رابطے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے بقول، ’’کچھ لوگ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘ خاتون ترجمان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے کابل حکومت اور افغان ہائی پیس کونسل کی درخواست پر ان قیدیوں کو رہا کر دیا ہے، ’’ہم نے ان کی باضابطہ ملاقاتیں کرانے کی کوشش بھی کی اور ہم مستقبل میں بھی یہ کرتے رہیں گے۔۔۔ اس تناظر میں پاکستانی کی نیت پر شک کرنا معاون ثابت نہیں ہوگا۔‘‘