1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے نیٹو اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات

عاطف توقیر22 دسمبر 2013

نیٹو نے ہفتے کے روز سے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جس کا مقصد سن 2014ء میں افغانستان سے نیٹو فوجوں کے انخلا کے بعد وہاں فوجی دستوں کے ممکنہ قیام سے متعلق معاملات طے کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1AegD
تصویر: picture-alliance/dpa

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کابل حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے تحت سن 2014ء میں افغانستان سے نیٹو فوجوں کے انخلا کے بعد وہاں تربیت اور تعاون کی غرض سے کچھ فوجی دستے قیام کر پائیں گے۔ تاہم اس بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ کابل حکومت کا جب تک امریکا کے ساتھ باہمی سکیورٹی معاہدہ مکمل نہیں ہو جاتا، اس معاہدے پر بھی دستخط نہیں کیے جائیں گے۔

افغان صدر حامد کرزئی اور واشنگٹن انتظامیہ کے درمیان باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخطوں کا معاملہ فریقین کے درمیان کشیدگی کی اہم وجہ بنا ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان میں سن 2014ء کے بعد بھی چند ہزار امریکی فوجی تعینات رہ پائیں گے۔ امریکی کا مؤقف ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان میں مقامی فورسز کو تربیت اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضروری معاونت فراہم کی جائے گی، تاہم صدر کرزئی کا کہنا ہے کہ کابل حکومت اگلے برس اپریل میں صدارتی انتخابات سے قبل اس معاہدے پر دستخط نہیں کرے گی۔ ابتدا میں صدر کرزئی نے اس معاہدے کی حمایت کی تھی، تاہم بعد میں اس پر دستخطوں سے انکار کر دیا تھا۔

Afghanistan Polizei Ausbildung
نیٹو اس معاہدے کے ذریعے اگلے برس کے بعد مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور معاونت کا خواہاں ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

ہفتے کے روز نیٹو کی جانب سے کابل حکومت کے ساتھ ایک الگ معاہدے کی بابت گفتگو کے آغاز سے متعلق بیان سامنے آنے کے بعد امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان ریئرایڈمرل جان کِربی نے کہا، ’’امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کی جانب سے کابل حکومت کے لیے یہ پیغام واضح ہے کہ باہمی سکیورٹی معاہدے پر کسی تؤقف کے بغیر فوری طور پر دستخط کیے جائیں۔‘‘

نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس دفاعی اتحاد کے سینیئر سویلین نمائندے ماؤرٹس یوخمز (Maurits Jochems) اور افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر رنگین سپانٹا اس سلسلے میں بات چیت کریں گے۔

اپنے اس بیان میں راسموسن کا کہنا تھا، ’’مجھے خوشی ہے کہ ہم آج ان مذاکرات کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نیٹو کے فوجی دستوں سے متعلق کسی بھی معاہدے پر دستخط اس وقت تک نہیں کیے جائیں گے، جب تک کابل اور واشنگٹن حکومتیں باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کر دیتیں۔‘‘

راسموسن نے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت نیٹو فوج افغان سکیورٹی فورسز کو ’تربیت، مشاورت اور معاونت‘ فراہم کرے گی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیردفاع چک ہیگل نے بھی نیٹو اور افغانستان کے درمیان ان مذاکرات کے آغاز کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ہیگل کے ایک ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’نیٹو کی جانب سے اس معاہدے کے لیے بات چیت کا آغاز عالمی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے سن 2014ء کے بعد بھی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار ہے۔‘‘