1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتافغانستان

افغانستان کے لیے امریکی امداد کی معطلی کا مطلب کیا؟

6 فروری 2025

طالبان کی حکومت والا افغانستان اپنے لوگوں کو بنیادی عوامی خدمات فراہم کرنے کے لیے وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکی امداد میں مستقل کٹوتی کے افغان عوام کے لیے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4q5n6
افغانستان،  یو ایس ایڈ،  امریکہ
یو ایس ایڈ افغانستان میں ضروری عوامی خدمات میں معاونت کے منصوبوں کو فنڈز فراہم کرتا ہےتصویر: Jalil Rezayee/EPA/dpa/picture alliance

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یو ایس ایڈ کے آپریشنز کو کم کرتے ہوئے امریکی غیر ملکی ترقیاتی امداد کو معطل کرنے کے اقدام سے افغانستان پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ملک ضروری خدمات کے لیے بیرونی امداد پر منحصر ہے۔

ٹرمپ کی جیت افغانستان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

اگست 2021 میں افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے باوجود امریکہ ملک کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے۔

انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (ایس آئی جی اے آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان کے ملک پر مکمل کنٹرول کے بعد سے واشنگٹن نے افغانستان اور افغان مہاجرین کے لیے 21 بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد مختص کی ہے یا دوسری صورت میں فراہم کی ہے۔

ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ

امریکہ کا موقف ہے کہ امدادی رقوم کا رخ افغان عوام کی طرف ہوتا ہے، اور طالبان کو ان تک رسائی سے روکنے کے لیے ضروری انتظامات کیے گئے ہیں۔

افغانستان: بھوک و افلاس سے بھرا ایک اور موسم سرما

طالبان کو 'افراتفری' کا سامنا

تاہم، افغانستان میں امریکی ڈالر کی ترسیل سے طالبان کو بالواسطہ فائدہ ہوا ہے۔ اس سے افغان کرنسی کو مستحکم کرنے اور تیزی سے افراط زر کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ امریکی امداد کی معطلی سے اس نازک توازن کے بگڑنے کا خطرہ ہے۔

ایک سابق افغان سفارت کار غوث جان باز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "امریکی غیر ملکی امداد، بشمول یو ایس ایڈ کی فنڈنگ روکنا، طالبان میں افراتفری کا باعث بنا ہے۔"

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کو غیر ملکی امداد، بشمول امریکہ کی طرف سے سالانہ فراہم کی جانے والی کروڑوں ڈالر کی امداد نے نادانستہ طور پر طالبان کو ملک پر کنٹرول برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ فنڈز کے بہاؤ میں کمی کے ساتھ، طالبان یا تو بین الاقوامی مطالبات کے سامنے جھک سکتے ہیں یا انہیں افغانستان کے اندر سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جاں باز نے مزید کہا، "گزشتہ تین سالوں میں، طالبان ایک خود کفیل معیشت قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس طرح کی امداد پر بہت زیادہ منحصر ہیں۔"

افغانستان، غربت
ماہرین نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کے امداد میں کٹوتی کے فیصلے سے عام افغانوں کے حالات کافی خراب ہوں گےتصویر: ATIF ARYAN/AFP

'افغان عوام کو قیمت ادا کرنا پڑے گی'

افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے، طالبان نے منظم طریقے سے خواتین کے بنیادی حقوق بشمول تعلیم اور گھر سے باہر کام کرنے پر روک لگادی ہے۔

طالبان کے دور حکومت میں افغان خواتین کو نقاب کے بغیر گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہے۔ خواتین کے حقوق کا مسئلہ، کسی بھی ملک کے طالبان کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔

اس کے نتیجے میں، دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر باضابطہ طور پر اب تک تسلیم نہیں کیا۔

طالبان ایک شمولیتی حکومت کے قیام یا افغان شہریوں کے لیے عوامی زندگی میں حصہ لینے کا عمل متعارف کرانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔

اگرچہ طالبان پر دباؤ بڑھانے کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے، تاہم کچھ لوگ اس لیے احتیاط  برت رہے ہیں کہ اہم امداد میں کٹوتی افغان عوام کے لیے مزید مصائب کا باعث بنے گی۔

ملک سے باہر مقیم  افغان خواتین کے حقوق کی ایک کارکن عظمی فروغ نے کہا،"اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، افغانستان میں 26 ملین لوگ اپنی بقا کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔" فروغ افغانستان میں اب بھی کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے ساتھ  مل کر کام کرتی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر انسانی ہمدردی کی تنظیمیں فنڈز تک رسائی کھو دیتی ہیں، تو وہ سب سے بنیادی امداد بھی فراہم کرنے سے قاصر ہوں گی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے پاس افغان عوام کی حمایت یا ترقی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ صرف اقوام متحدہ، بین الاقوامی ایجنسیوں اور افغان امدادی تنظیموں سے مدد ملتی ہے،" انہوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کے امداد میں کٹوتی کے فیصلے سے عام افغانوں کے حالات کافی خراب ہوں گے۔"

امریکہ، ٹرمپ، امداد میں کٹوتی
امداد میں کٹوتی کے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف امریکہ میں مظاہرے ہوئے ہیںتصویر: J. Scott Applewhite/AP/picture alliance

افغانستان کے لیے ٹرمپ کا کوئی منصوبہ نہیں؟

افغانستان کے لیے امداد میں کمی صدر ٹرمپ کے بڑے انتظامی احکامات کا نتیجہ ہے، جن کا ہدف خاص طور پر افغانستان پر نہیں تھا، بلکہ مجموعی طور پر ترقیاتی امداد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ افغانستان اس وقت ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے اس ایجنڈے کے حاشیے پر ہے، جس میں مشرق وسطیٰ اور یوکرین کے تنازعات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔

چار فروری کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ایک افغان صحافی نے ٹرمپ سے افغانستان کے بارے میں ان کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا۔ جس پر ٹرمپ نے کہا، "آپ کے خوبصورت لہجے" کو میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ اس سے یہ واضح نہیں کہ آیا ٹرمپ واقعی اس سوال کو سمجھنے میں ناکام رہے یا اس سے مکمل طور پر گریز کر رہے تھے۔

فروغ نے ​​کہا، "مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس افغانستان کے لیے ابھی کوئی منصوبہ ہے۔"

تاہم، ٹرمپ طالبان سے اپنے مطالبات کے بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں - یعنی امریکہ کے پیچھے چھوڑے گئے فوجی سازوسامان کی واپسی اور بگرام ایئربیس پر کنٹرول، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اب چین کے زیر اثر ہے، اس دعوے کی طالبان نے تردید کی ہے۔

جاں باز کے مطابق، یہ ریمارکس افغانستان کے حوالے سے امریکی ٹھوس حکمت عملی کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ ٹرمپ کی مہم کے بیانات کا حصہ ہیں۔

جاں باز کا خیال ہے، "آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ٹرمپ افغانستان کو کس طرح سنبھالتے ہیں، لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ان کا نقطہ نظر پچھلی انتظامیہ کی طرح نہیں ہو گا۔"

ج ا ⁄  ص ز (مسعود سیف اللہ)