1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کےصدارتی انتخابات کے متنازعہ نتائج پر پاکستان کی تشویش

شکور رحیم/ اسلام آباد8 جولائی 2014

پاکستان میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان میں صدارتی انتخابات کے نتائج پر تنازعہ بڑھا تو اسکے پاکستان سمیت پورے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/1CY8g
تصویر: Reuters/Omar Sobhani

افغانستان میں پیر کے روز سامنے آنے والے ابتدائی نتائج کے مطابق اشرف غنی نے 14 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 56 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں، جبکہ ان کے مخالف امیدوار عبداللہ عبداللہ 43 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔

تاہم عبداللہ عبداللہ کی جانب سے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار اور منگل کو کابل میں اپنی کامیابی کے اعلان نے صورتحال کو تبدیل کر دیا ہے۔

پاکستان نے سرکاری طور پر تو ابھی تک افغان صدارتی انتخابات سے متعلق کو ئی بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان افغان صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ہونیوالی پیشرفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

افغان امور کے ماہر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ افغان انتخابات پہلے مرحلے سے ہی متنازع ہو گئے تھے کیونکہ دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزمات لگانے شروع کر دیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی میں سےکو ئی بھی بر سر اقتدار آجائے وہ ایک کمزور حکمران ہوگا کیونکہ پاور شیئرنگ کیے بغیر حکومت کرنا کسی ایک کے لئے بھی آسان نہیں ہو گا۔

Abdullah Abdullah erklärt sich zum Sieger der Stichwahl in Kabul
عبداللہ عبداللہ 43 فیصد ووٹ حاصل کر سکےتصویر: Reuters/Omar Sobhani

رحیم اللہ یوسفزئی نے افغان صدارتی انتخابات کے پاکستان کے لئے مضمرات کے بارے میں کہا کہ،"ڈاکٹر عبد اللہ شاید پاکستان کے لئے زیادہ ناپسندیدہ تھے اور اشرف غنی چونکہ پشتون ہیں اور اکانومسٹ ہیں تو یہ شاید پاکستان کے لئے زیادہ بہتر ہو گا لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اشرف غنی زیادہ آزاد طبیعت کے مالک ہیں اور وہ افغانستان کے مفادات کا زیادہ خیال کریں گے وہ ایک قوم پرست راہنما ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ کرزئی حکومت میں عبداللہ عبداللہ وزیر خارجہ اور اشرف غنی وزیر خزانہ رہے اس لئے یہ کہنا کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی کرزئی حکومت کی پا کستان پالیسی سے خود کو بالکل الگ رکھے گا تو یہ شاید درست نہ ہو۔

تاہم ڈان میڈیا گروپ سے وابستہ خارجہ امور کی رپورٹنگ کرنیوالے سینیئر صحافی متین حیدر کا کہنا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال پاکستان،امریکہ اور اتحادی ممالک کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ،" امریکہ اور نیٹو فورسز توقع کر رہی تھیں کہ نئی حکومت آئے گی اور وہ دو طرفہ سکیورٹی معاہدہ جو اس وقت مؤخر ہوا پڑا ہے وہ اس پر دستخط کریں گے ادھر اسلام آباد بھی یہ توقع کر رہا تھا کہ کابل میں نئی حکومت آئے گی اس کے ساتھ پاکستان کے بہت سے سیاسی اور سکیورٹی کے جو ایشوز ہیں ان پر بات کرنا تھی تو کابل میں یہ سیاسی بحران آگے بڑھا تو اس کے پورے خطے پر اثرات مرتب ہوں گے"۔

Afghanistan Wahl Präsidentschaftskandidat Ashraf Ghani 22.05.2014
افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج کا تنازع پورے خطے کے لیے خطرہ ہےتصویر: picture-alliance/dpa

خیال رہے کہ پاکستان نے افغان انتخابات کو افغانستان اور خطے میں امن واستحکام کے لئے اہم سنگ میل قرار دیا تھا۔ پاکستانی دفتر خارجہ ان انتخابات کے دوران پاکستان کی جانب سے سکیورٹی اور دیگر حوالوں سے متعدد بار تعاون کا اعادہ کیا تھا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات اور اس سے جڑے معاملات افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے ۔ انہوں نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ افغانستان میں عدم مداخلت کے اپنے ایجنڈے پر سختی سے کاربند رہے۔ شاہی سید نے کہا کہ ،"ہم اگر اڑوس پڑوس میں اچھے تعلقات رکھیں گے برابری کے تعلقات رکھیں گے تو حالات بہتر ہو جائیں گےافغانستان کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ لڑائی کرے لیکن یہ اگر ہم کو آرام سے جینے دیں اور ہم ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں تو یہ ان کے لئے بھی بہتر ہے اور ہمارے لئے بھی بہتر ہے"۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کا تنازعہ جلد حل نہ ہوا تو اس سے سرحد کے دونوں جانب طالبان شدت پسندوں کو منظم ہونے میں مدد ملے گی کیونکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے حکومت پر قبضے سے افغانستان کو ملنے والا امریکی تعاون ختم ہو سکتا ہے۔