1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی ممکنہ تنہائی: پاکستان کے لئے پیچیدگیاں

عبدالستار، اسلام آباد
2 ستمبر 2021

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بین الاقوامی برادری کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے افغان عوام کو تنہا چھوڑا، تو جنگ زدہ ملک میں ایک بار پھر دہشت گردوں کے اڈے بن جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/3zpC6
Afghanistan | Pakistan | Grenzübergang in Chaman
تصویر: DW

 شاہ محمود قریشی کے اس بیان کے بعد ملک میں کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا واقعی بین الاقوامی برادری افغان عوام کو چھوڑنے جا رہی ہے اور جنگ زدہ ملک میں کیا صورتحال ایک بار پھر سن 1990 کی دہائی کی طرف جارہی ہے، جب دنیا نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور اس کے پاکستان کے لئے بڑے خطرناک نتائج نکلے تھے۔

طالبان پر امریکا اور اتحادی ممالک کا کتنا اثر و رسوخ ہے؟

ایک برطانوی ٹی وی اسکائی نیوز  کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دنیا کو طالبان سے بات چیت کرنی چاہیے، ان سے روابط ختم کرنے نہیں چاہیے۔ دوسری جانب امریکہ اور کچھ مغربی ممالک اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مل کر کام کیا جا سکتا ہے اور واشنگٹن نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ شاید اسلامک اسٹیٹ خراسان کے خلاف کوئی مشترکہ کوشش کی جائے۔

Heiko Maas in Islamabad
پاکستانی اور جرمن وزرائے خارجہ کی حالیہ ملاقات کا موضوع بھی افغانستان تھاتصویر: REUTERS

بین الاقوامی برادری تنہا چھوڑ رہی ہے

معروف صحافی و تجزیہ کار اور ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاءالدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "امریکہ نے افغان حکومت کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں جبکہ بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اپنا ہاتھ افغانستان سے کھینچ لیا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے ادارے افغان طالبان کو پیسے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو ان تمام باتوں سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں دلچسپی نہیں لے رہی اور وہ افغان طالبان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں گے۔‘‘

پاکستان کے لئے خطرناک نتائج

ضیاء الدین کے بقول افغان طالبان کا رویہ بھی ایسا ہے کہ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بالکل نہیں بدلے اور ان کے اس سخت رویہ کی وجہ سے بین الاقوامی برادری ان کی مدد نہیں کرے گی۔ "اس کے نتائج پاکستان کے لئے خطرناک ہوں گے۔ یہاں پر مذہبی تنظیمیں پہلے ہی افغان طالبان کی فتح پر جشن منا رہی ہیں اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہاں پر مذہبی تنظیمیں افغان طالبان کے لیے چندہ اکٹھا کریں اور ان کی مالی مدد کریں جیسا کہ 90 کی دہائی میں الرشید ٹرسٹ اور دوسری تنظیموں نے کیا تھا۔ اس سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔‘‘

Washington Rede Präsident Biden Aghanistan
امریکا نے افغانستان کے نو ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے ہیںتصویر: Evan Vucci/AP Photo/picture alliance

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر بین الاقوامی برادری افغان عوام کی مدد نہیں کرے گی، تو پھر افغانستان معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر جا سکتا ہے۔ ضیاءالدین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ "دیکھنا یہ ہوگا کہ چین اور روس کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ اگر چین اور روس نے افغان طالبان کی مدد کی اور افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑا، تو شاید پھر مغرب کی طرف سے تنہا چھوڑنے کے اس عمل کی اتنی اہمیت نہیں ہوگی لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو پاکستان میں مہاجرین کا ایک سیلاب آجائے گا اور مالی پریشانیوں میں اضافہ ہو گا اس کے علاوہ پاکستان کا سماجی ڈھانچہ بھی تباہی کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘

چمن کی سرحدی گزر گاہ بند کی جا سکتی ہے، شیخ رشید

پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ افغانستان کی آمدنی کا 80 فیصد حصہ بین الاقوامی برادری سے آرہا تھا اور اگر وہ یہ حصہ روک دے گی تو افغانستان میں معاشی تباہی آئے گی جس کے نتائج پورے خطے کے لیے اور دنیا کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ایسی صورت میں پوری دنیا سے جہادی ایک دفعہ پھر افغانستان میں آکر اپنے اڈے بنانا شروع کردیں گے اور مغرب اور خطے کے ممالک میں دہشت گردی کرین گے۔ کشمیر میں جہاد دوبارہ کھل سکتا ہے جن سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ ملک پہلے ہی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔‘‘

Afghanistan Auf den Straßen von Kabul, unter Kontrolle der Taliban
امریکی فوج کے مکمل انخلا کے بعد باوردی افغان طالبان کابل ایئرپورٹ پر ڈیوٹی دیتے ہوئےتصویر: REUTERS

افغان اثاثوں کی بحالی ضروری

تجزیہ نگار ایوب ملک کا خیال ہے کہ اس تباہ کن صورت حال سے بچنے کے لیے امریکہ نے افغانستان کے جو نو بلین ڈالرز کے اثاثے منجمد کیے ہیں، ان کو مشروط طور پر طالبان کو آہستہ آہستہ واپس کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا، "پاکستان کو چاہیے کہ وہ طالبان کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں، خواتین کو کام کرنے اوریونیورسٹی لیول تک تعلیم حاصل کرنے کی اور بین الاقوامی این جی اوز کو کام کرنے کی اجازت دیں تا کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کی مدد کر سکے۔‘‘

امریکا کا داعش کے خلاف طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ

ایوب ملک کے مطابق اگر ایک خودمختار پارلیمنٹ میں یہ سارے مسائل زیر بحث آتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ ان کا کہنا تھا ''پاکستان کو چاہیے کہ اپنی سولو فلائٹ نہ کرے بلکہ ریجن کے ممالک سے مل کر افغانستان کے مسائل کے لئے کوئی حل نکالے۔‘‘