1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کا اقتصادی بحران شدید تر ہوتا ہوا

28 اگست 2021

شورش زدہ ملک افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا نے عدم استحکام کے ساتھ اقتصادی بحران بھی پیدا کر دیا ہے۔ اس ملک کے نئے حکمرانوں کے پاس اس گھمبیر صورت حال سے نمٹنے کی کتنی صلاحیت ہے، اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔

https://p.dw.com/p/3zbsg
Afganistan, Herat, Geldgeschäfte
تصویر: Getty Images/A.Karimi

طالبان افغانستان کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں اور ابھی وہ حکومت سازی کے لیے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب عوام میں خوف و ہراس کے علاوہ طالبان حکومت سے فرار کی کوششوں میں ناکامی اور حالیہ خودکش حملے کے بعد انخلا کی پروازوں کے بند ہونے کی تاریخ قریب پہنچنے کی وجہ سے مایوسی اور بے چینی شدید تر ہو گئی ہے۔

’افغانستان کا بحران، اشرف غنی اور جو بائیڈن ذمہ دار‘

امریکا اور مغربی اقوام کا انخلا کا عمل بھی اپنی تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ امریکا نے واضح کر دیا ہے کہ پہلے امریکی فوجیوں کے انخلا کو مکمل کیا جائے گا اور اس کے بعد ہی افغان عوام کی منتقلی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

Deutschland | Demonstration für die Evakuierung von Afghanen
کئی ممالک میں لوگوں نے افغان شہریوں کی مدد جاری رکھنے کے حق میں مظاہرے بھی کیے ہیںتصویر: Erbil Basay/AA/picture alliance

افغان عوام کا مظاہرہ

سینکڑوں افغان شہریوں نے ہفتہ اٹھائیس اگست کو کابل میں ایک بینک کی عمارت کے سامنے شدید مظاہرہ کیا ہے۔ افغان دارالحکومت کابل میں کیش مشینوں پر بھی لوگوں کی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔

مظاہرین نے احتجاج نیو کابل بینک کے باہر کیا۔ ان مظاہرین میں سرکاری ملازمین بھی شامل تھے، جنہیں گزشتہ تین ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سب کچھ بند ہو گیا تھا اور اب بازار، دفاتر اور بینک کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ تین روز قبل بینکوں نے اپنے تالے ضرور کھولے ہیں لیکن وہ ابھی تک کسی بھی شخص کو نقد رقوم ادا نہیں کر رہے۔

امریکا کا کابل حملے کے مبینہ منصوبہ ساز کو ہلا ک کردینے کا دعویٰ

خودکار کیش مشینیں کھلی ہیں لیکن ان میں سے یومیہ رقوم حاصل کرنے کی حد کو مزید کم کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی ایک فرد چوبیس گھنٹوں میں صرف دو سو ڈالر کے مساوی رقوم نکال سکتا ہے۔

قحط کا خطرہ

اس دوران اقوام متحدہ کی ایک اہم ایجنسی نے اس خطرے کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ حالات سے اس ملک میں بھوک بڑھے گی اور قحط جیسی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے روم میں قائم خوراک و زراعت کے بین الاقوامی ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خوراک کے ذخیرے بھی بتدریج کم ہو رہے ہیں کیونکہ بیرونی دنیا سے خوراک اور مالی امداد کی سپلائی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔

Afghanistan | Kabul Airport nach Explosion
طالبان کے منع کرنے کے باوجود لوگ کابل ایئرپورٹ کی جانب جانے سے گریز نہیں کر رہےتصویر: REUTERS

ادارے کے مطابق اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو سات ملین افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایک نئی پریشان کن صورت حال کا افغان عوام اور طالبان کو سامنا ہو گا۔

ایف اے او کے مطابق افغان عوام کو کورونا وبا کا بھی سامنا ہے اور بھوک کا زیادہ سامنا ان داخلی مہاجرین کو ہو گا جو اپنی جانیں بچا کر گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں۔ اس ادارے کا کہنا کہ ہر تیسرا افغان شہری خوراک کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔

داعش کو کابل حملوں کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی، صدر بائیڈن

معتدل حکومت کا امکان

مبصرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی صورت حال خراب ہونے سے مغربی اقوام مالی امداد دینے کے تناظر میں طالبان سے ایک اعتدال پسندانہ حکومت قائم کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

Afghanistan ,oderne Sklaverei in Kabul
افغانستان کے عام لوگوں کو روزانہ کی زندگی بسر کرنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہےتصویر: DW/S.Tanha

دوسری جانب کابل ایئرپورٹ کے باہر خود کش حملے کے بعد بھی ایسے لوگوں کی بھیڑ جمع ہے، جو بیرون ملک جانے کے لیے بے چین ہیں۔

اٹلی کے وزیر اعظم ماریو دراگی کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو کسی بھی حالت میں افغان عوام  اور خاص طور پر عورتوں بچوں کو بغیر کسی امداد کے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور ہمسایہ ممالک کو افغان شہریوں کی ہر ممکن مدد کرنے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

دوسری جانب طالبان اپنے عوام کو بار بار ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ ملک چھوڑنے کی راہ مت اختیار کریں اور واپس اپنے گھروں کو لوٹ جائیں کیونکہ حالات میں جلد سدھار پیدا ہو جائے گا۔

ع ح/ش ح (اے پی)