1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: ڈالرز میں تجارت کرنے کے دروازے بندش کے قریب

شادی خان سیف، کابل27 مئی 2014

مالیاتی جانچ پڑتال کی عالمی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے افغانستان کو پانچ ہفتوں کی مہلت دی ہے کہ وہ اپنے ہاں کالے دھن سے متعلق قوانین وضع کرے ورنہ دنیا بھر کے بینک افغان بینکوں کے ساتھ ڈالرز میں لین دین بند کردیں گے۔

https://p.dw.com/p/1C7cO
Dollar / Banknoten / US-Dollar / 100 Dollar
تصویر: AP

افغانستان کا شمار دنیا کی ان چند کمزور ترین معیشتوں میں ہوتا ہے، جو بڑی حد تک بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی حالیہ تنبیہ سے قبل ہی چین کے متعدد بینکوں نے افغان تاجروں کے ساتھ ڈالرز میں لین دین کا سلسلہ بند کر دیا تھا۔ افغانستان کا اہم تجارتی حلیف سمجھے جانے والے چین سے درآمدات کے لیے افغان تاجر مجبور ہیں کہ پہلے سرمائے کو چینی کرنسی میں تبدیل کروائیں اور پھر تجارت کریں۔ جس سے کمیشن اور سروس چارجز کے ضمن میں نہ صرف تاجروں کو نقصان ہورہا ہے بلکہ مجموعی قومی معیشت کو بھی نقصان ہورہا ہے۔

افغانستان کی سالانہ درآمدات کا حجم قریب دس ارب ڈالر جبکہ برآمدات کا حجم چار سو ملین ڈالرز کے لگ بھگ ہے
افغانستان کی سالانہ درآمدات کا حجم قریب دس ارب ڈالر جبکہ برآمدات کا حجم چار سو ملین ڈالرز کے لگ بھگ ہےتصویر: AP

یاد رہے کہ افغانستان کے بیشتر نجی بینک عالمی سطح پر براہ راست لین دین نہیں کرتے بلکہ امریکا، یورپ، ترکی یا خلیجی ممالک میں قائم اپنے اپنے رابطہ بینکوں کے توسط سے ٹرانزیکشنز کرتے ہیں۔

عالمی تنظیم جن قوانین کے اطلاق کا مطالبہ کر رہی ہے وہ کسی حد تک افغانستان میں موجود تو ہیں تاہم اس تنظیم کا مؤقف ہے کہ چونکہ افغانستان میں منشیات کی آمدن، دہشت گردی میں سرمائے کے استعمال اور کرپشن کی شرح بلند ہے، اس لیے کابل حکومت جلد از جلد نئے اور سخت قوانین متعارف کروائے تاکہ اس ملک میں مزید کالے دھن کی گردش کا راستہ روکا جاسکے۔

افغانستان میں تیل و گیس کے شعبے سے وابستہ نامور تاجر آزاراکش حافظی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جدید دور کے بینکاری نظام سے استفادے کے لیے نئے اور مؤثر قوانین کا اطلاق ناگزیر ہوچکا ہے: ’’منی لانڈرنگ کے خلاف یہ قوانین پوری دنیا کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ہم یہ نہیں کرسکتے کہ اپنے افغانی ذوق کے مطابق قوانین کا اطلاق کریں۔ آئی ایم ایف اور دیگر ہمیں ساٹھ فیصد بجٹ دیتے ہیں تو وہ ہم پر یہ قوانین نافذ کرواکر رہیں گے۔‘‘

قریب چار دہائیوں سے جنگی حالات میں گِھرے رہنے والے ملک افغانستان کی سالانہ درآمدات کا حجم قریب دس ارب ڈالر جبکہ برآمدات کا حجم چار سو ملین ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں اب بھی بڑی حد تک سرمائے کی لین دین نقدی کی شکل میں کی جاتی ہے اور اسمارٹ کرنسی کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بہت سے حلقے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے بعض مطالبات کو داخلی امور میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

افغان تاجر مجبور ہیں کہ پہلے سرمائے کو چینی کرنسی میں تبدیل کروائیں اور پھر تجارت کریں
افغان تاجر مجبور ہیں کہ پہلے سرمائے کو چینی کرنسی میں تبدیل کروائیں اور پھر تجارت کریںتصویر: AP

پڑوسی ممالک بھی زیر اثر

پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے سابق سربراہ خان جان الکوزئی کے بقول تجارتی سرمائے کی جانچ پڑتال جائز ہے مگر ذاتی ملکیت کی پوچھ گچھ ٹھیک نہیں جبکہ کابل حکومت بھی بعض دیگر ممالک کی طرح کالے دھن کو سفید کرنے کا بندوبست کرے تاکہ مستقبل میں کالے دھن کا راستہ روکا جاسکے۔ افغانستان میں اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کے نہ ہونے کے پڑوسی ممالک پر اثرات بابت انہوں نے کہا: ’’ڈالرز میں کاروبار نہ کر سکنے کی پابندی کے بعد ایران اور پاکستان کے ساتھ اتنی بڑی سرحد کے آر پار تاجر غیر قانونی طریقوں سے تجارت پر مجبور ہوجائیں گے، جس سے کسی بھی ریاست کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔‘‘

افغان کابینہ اینٹی منی لانڈرنگ سے متعلق قانون کی منظوری دے چکی ہے تاہم اس کی بعض شقوں پر کابینہ اور پارلیمان کو تحفظات لاحق ہیں۔ ان تحفظات کو دور کرنا زیادہ مشکل اس لیے بھی لگ رہا ہے کیونکہ حامد کرزئی کا دور قریب ختم ہوچکا ہے جبکہ نئے صدر کے انتخاب میں ابھی کافی وقت ہے۔ بلیک لسٹ ہونے کے بعد افغانستان میں اشیائے خوراک کی قلت سمیت متعدد سنگین معاشی و سماجی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔