1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں نیٹو کا ایک مشن ختم ہونے، دوسرا شروع ہونے کو

عصمت جبیں28 دسمبر 2014

آج سے صرف تین دن بعد افغانستان میں نیٹوکا موجودہ فوجی مشن ختم ہو رہا ہے جبکہ یکم جنوری 2015 سے وہاں مغربی دفاعی اتحاد کا ایک نیا مشن شروع ہونے والا ہے۔ لیکن نیٹو مشن کے اختتام پر بھی افغانستان میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

https://p.dw.com/p/1EAqV
تصویر: Shah Marai/AFP/GettyImages

کئی تجزیہ نگاروں کی رائے میں افغانستان میں بین الاقوامی حفاظتی فوج یا آئی سیف کہلانے والے نیٹو کے فوجی دستوں کے اس مشن کے مقاصد تو واضح تھے لیکن اس کی کامیابیوں اور خامیوں کے بارے میں بین الاقوامی رائے ابھی بھی متضاد اور منقسم ہے۔

نیٹو کی قیادت میں آئی سیف کا یہ مشن 2014 کے اختتام پر مکمل ہو جائے گا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے نیٹو کے مسلح دستے اپنے کیمپوں کو خالی کرنے میں مصروف تھے۔ ان فوجیوں اور ان کے عسکری ساز و سامان کا زیادہ تر حصہ پہلے ہی ان کے ملکوں میں واپس پہنچ چکا ہے۔

امریکا نے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے چند ہفتوں بعد ہی افغانستان میں اُس وقت فوجی مداخلت کی تھی جب وہاں طالبان کی حکومت قائم تھی۔ پھر ISAF کا فوجی مشن کابل سے دسمبر 2001 میں شروع ہوا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ نیٹو کی قیادت میں آئی سیف کے اس فوجی مشن کا دائرہ پورے افغانستان تک پھیلا دیا گیا تھا۔ تب ہندوکُش کی اس ریاست میں قریب پچاس ملکوں کے ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد فوجی تعینات تھے۔

Jens Stoltenberg in Afghanistan 06.11.2014
نیٹو کے سیکرٹری جنرل سٹولٹن برگ کے مطابق نیٹو دستوں نے افغانستان میں وہ کچھ کیا جو ان کا فرض تھاتصویر: picture alliance/AP Photo/M. Hossaini

یہ مشن نیٹو کی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی مشن بھی تھا۔ یہ مشن اقوام متحدہ کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ کے تحت مکمل کیا گیا۔ مقصد طالبان دور کے بعد کے افغانستان کی تعمیر اور وہاں جمہوریت کو مضبوط بنانا بھی تھا۔ انٹرنیشنل فورسز کو یہ بات بھی یقینی بنانا تھی کہ افغانستان دوبارہ بین الاقوامی دہشت گردوں کا گڑھ نہ بنے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل سٹولٹن برگ کے مطابق نیٹو دستوں نے افغانستان میں وہ کچھ کیا جو ان کا فرض تھا، افغانستان کو مضبوط بنانا اور اپنے ملکوں کو زیادہ محفوظ بنانا۔ لیکن 2001ء میں نیٹو کے موجودہ فوجی مشن سے پہلے اگر بہت زیادہ امیدیں لگائی گئی تھیں تو 2014 کے اختتام پر اسی ملک میں نیٹو کے ایک نئے مشن کے آغاز سے پہلے اب محتاط امید پسندی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن مئی 2011 میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ امریکی فوجی آپریشن میں مارا گیا۔ افغانستان میں سکیورٹی کی ذمے داریاں بھی اب نیٹو دستوں سے افغان فورسز کو منتقل ہو چکی ہیں۔ افغانستان میں عسکریت پسندوں کو ابھی پوری طرح شکست نہیں ہوئی۔ اکتوبر 2013 میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ افغانستان ابھی محفوظ نہیں ہے۔

کئی ماہرین کہتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ وہاں گزشتہ تیرہ برسوں میں تین ہزار چار سو سے زائد اتحادی فوجی مارے گئے، جن میں 55 جرمن فوجی بھی شامل تھے۔ لیکن افغانستان میں طالبان کے حملوں میں صرف اسی سال کے دوران نومبر کے وسط تک چھ ہزار کے قریب افغان فوجی اور پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔ اس کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں اس ملک کے عام شہری بھی۔

افغانستان میں یکم جنوری 2015 کے بعد بھی قریب بارہ ہزار غیر ملکی فوجی تعینات رہیں گے، جن کا فرض افغان دستوں کی عسکری تربیت اور فوجی مشاورت ہو گا۔ ایک امریکی لیفٹیننٹ جنرل جوزف اینڈرسن نے اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا، ‘‘میں نہیں جانتا کہ میں اس وقت زیادہ امید پسند ہوں کہ کم امید۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید