1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان میں خفیہ ملاقاتیں

عاطف بلوچ13 مارچ 2015

کچھ روز قبل ہونے والے اس انکشاف کے بعد کہ افغان طالبان قیام امن کے لیے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر تیار ہیں، افغان جنگجوؤں کے سینئر نمائندوں نے اسلام آباد کے ایک حالیہ دورے کے دوران خفیہ مذاکرات کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EqJw
تصویر: picture-alliance/dpa/Noorullah Shirzada

دورہ پاکستان کے دوران طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں کے ایک وفد کو پاکستان کی طرف سے ایک کھلا پیغام بھی دیا گیا، جس کے مطابق افغانستان میں قیام امن کی کوششوں سے قبل طالبان کے مابین پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنا ناگزیر ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے طالبان ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امن مذاکرات کے حامی سیاسی رہنما اختر محمد منصور اور مفاہمت سے انکاری گوانتا نامو بے کے سابق قیدی اور موجودہ جنگجو کمانڈر عبدالقیوم ذاکر نے اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے حال ہی میں ایک ملاقات میں بھی کی۔

روئٹرز کے ذرائع کے مطابق ذاکر اور منصور کے مابین ہونے والی اس ملاقات میں یہ حریف رہنما آپس میں متفق نہ ہو سکے۔ منصور جنگجو کمانڈر ذاکر کو کابل کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر رضا مند نہ کر سکے کیونکہ اس طالبان رہنما کے مطابق افغانستان میں حقیقی طور پر امریکا ہی کی حکومت قائم ہے اور اس مذاکراتی عمل سے صرف وقت ہی ضائع ہو گا۔

Deutschland Münchner Sicherheitskonferenz 2015 MSC Aschraf Ghani
افغان صدر اشرف غنی بھی کابل اور طالبان کے مابین مذاکرات کے حامی ہیںتصویر: Reuters/M. Dalder

’دعوے اور انکار‘

افغانستان میں قیام امن کی یہ تازہ کوشش اس لیے بھی اہم قرار دی جا رہی ہے کیونکہ اب اس میں پاکستان کے علاوہ چین نے بھی سفارتی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ لیکن معاملات کی پیچیدگیوں کے باعث اس کی ممکنہ کامیابی پر ابھی بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

افغان حکومت اور طالبان کے مابین اعتماد کا فقدان ہے۔ ایسے امکانات بھی ہیں کہ امن مذاکرات کی شرط کے طور پر طالبان افغانستان سے غیر ملکیوں افواج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کر سکتے ہیں، جو یقینی طور پر افغان صدر اشرف غنی مسترد کر دیں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں گزشتہ برس کے اختتام پر غیر ملکی جنگی مشن کے خاتمے کے بعد بھی وہاں اس وقت بارہ ہزار غیر ملکی فوجی موجود ہیں، جو وہاں تربیت اور مشاورت کے کام میں مصروف ہیں۔

روئٹرز کے مطابق ان تمام تر مشکلات کے باوجود کابل حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستانی فوج کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب ڈینیل فیلڈمین نے رواں ہفتے ہی پاکستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا، جس میں انہی ممکنہ مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کی گئی تھی۔

طالبان کمانڈروں اور پاکستانی حکام کے مطابق اسی سلسلے میں فروری کے اواخر میں قاری دین محمد حنیف نے بھی اسلام آباد میں پاک فوج اور چینی سفارتکاروں سے ملاقات کی تھی۔ تاہم طالبان کے ترجمان نے قطر میں قائم ان کے سیاسی دفتر کے نمائندے قاری دین محمد حنیف کے اس دورے کی خبر کو مسترد کر دیا تھا۔ چینی وزارت خارجہ نے بھی اس خبر کو ’حقیقت سے متضاد‘ قرار دیا تھا۔

پاکستان افغان طالبان کو مجبور کر سکتا ہے

افغان طالبان کے وفد کے تازہ دورہ پاکستان سے واقف ایک باغی کمانڈر نے بتایا ہے کہ اسلام آباد کے بعد اس وفد نے کوئٹہ کا دورہ بھی کیا۔ پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں افغان طالبان کے متعدد رہنما ابھی تک روپوش ہیں، اور اس وفد کا کوئٹہ جانا دراصل ایسے طالبان رہنماؤں کو مذاکراتی عمل کے حوالے سے ابتدائی بات چیت کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنا تھا۔

Afghanistan erste Solo-Offensive der Armee gegen die Taliban
’افغانستان میں قیام امن کی کوششوں سے قبل طالبان کے مابین پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنا ناگزیر ہے‘تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Khaliq

طالبان کے ایک رہنما نے ٹیلی فون پر روئٹرز کو بتایا کہ اسلام آباد حکومت کی طرف سے مشورہ دیا گیا ہے کہ کابل کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات سے قبل طالبان اپنے آپس کے اختلافات دور کریں۔ واضح رہے کہ مشرقی افغانستان میں طالبان کمانڈر ذاکر کے ہزاروں جنگجو سرگرم ہیں اور اگر وہ فائربندی پر متفق نہیں ہوتا تو مذاکراتی عمل کا آغاز بے سود ثابت ہو گا۔

کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات کے مخالف طالبان کمانڈر ذاکر کی مصالحتی عمل میں شرکت کے حوالے سے طالبان کا سپریم لیڈر ملا محمد عمر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ 2001ء میں افغاستان میں طالبان کی حکومت ختم کر دیے جانے کے بعد سے ہی ملا عمر روپوش ہے۔

کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق طالبان جنگجو کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے پر رضامند ہو جائیں گے کیونکہ دوسری صورت میں انہیں پاکستانی حکام کی طرف سے گرفتاری یا ملک بدر کر دیے جانے کا خطرہ ہو گا۔ اسلام آباد حکومت طالبان کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ القاعدہ سے اپنے روابط ختم کریں اور خود کو تحریک طالبان پاکستان سے الگ کر لیں۔

اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک فاٹا ریسرچ سینٹر سے وابستہ سکیورٹی تجزیہ نگار سیف اللہ محسود کے مطابق، ’’اور کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن (امن مذاکرات کے حوالے سے) اچھے اشارے مل رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’افغان طالبان کے کاروبار، کنبے اور رقوم پاکستان میں ہیں۔ افغان طالبان اتنے سمجھدار ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان سے زیادہ بہتر رابطہ پاکستانی ریاست ہے۔‘‘