1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں فرانسیسی لڑاکا مشن کا اختتام

20 نومبر 2012

پیرس حکومت کی جانب سے جنگ زدہ افغانستان سے جلد از جلد اپنے دستوں کے انخلاء کے فیصلے کے بعد آج منگل بیس نومبر سے فرانس نے اس ملک میں اپنا مشن ختم کر دیا ہے۔ اگلے مہینے تک تمام فرانسیسی لڑاکا دستے افغانستان چھوڑ دیں گے۔

https://p.dw.com/p/16m7R
تصویر: Reuters

افغانستان میں امریکی سرکردگی میں سرگرم عمل بین الاقوامی محافظ دستے ISAF کے ایک لاکھ فوجی سن 2014ء کے اواخر تک اس ملک کو چھوڑ دیں گے۔ تاہم فرانسیسی لڑاکا دستوں کا انخلاء دو سال پہلے ہی عمل میں آ رہا ہے۔

اگرچہ اگلے مہینے تک تمام فرانسیسی لڑاکا دستے افغانستان سے واپس آ جائیں گے تاہم تقریباً پندرہ سو فرانسیسی فوجی 2013ء شروع ہونے کے بعد بھی جنگی ساز و سامان کی واپسی کے انتظام اور افغان فوجیوں کی تربیت کے لیے کچھ عرصہ وہیں رہیں گے۔

فرانس 2001ء کے اواخر میں افغانستان میں جنگی کارروائیوں میں شریک ہوا تھا، جب گیارہ ستمبر کو امریکا پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اسامہ بن لادن اور القاعدہ نیٹ ورک کو پناہ دینے والے طالبان کی حکومت ختم کرنے کے لیے اتحادی افواج کی کارروائی شروع ہوئی تھی۔

19 نومبر کی اس تصویر میں فرانسیسی فوجی اپنے ساز و سامان کی فہرست بنا رہے ہیں
19 نومبر کی اس تصویر میں فرانسیسی فوجی اپنے ساز و سامان کی فہرست بنا رہے ہیںتصویر: Reuters

تاہم گیارہ سال کی لڑائی کے باوجود طالبان کے اندر مزاحمت کی صلاحیت موجود ہے اور یہ خدشات موجود ہیں کہ 2014ء کے بعد اس ملک میں پھر سے خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے یا یہ کہ طالبان پھر سے برسراقتدار بھی آ سکتے ہیں۔

آج جب افغان دارالحکومت کابل سے شمال مشرق کی جانب کاپیسا (Kapisa) صوبے کے نجراب (Nijrab) نامی اڈے سے آخری چار سو فرانسیسی فوجیوں کے انخلاء کی الوداعی تقریب منعقد ہوئی، تو فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کا ایک نامہ نگار بھی وہاں موجود تھا۔

امریکا، برطانیہ، جرمنی اور اٹلی کے بعد ISAF کو فوجی فراہم کرنے والا پانچواں بڑا ملک فرانس ہی تھا اور ان گیارہ برسوں کے دوران اُس کے 88 فوجی ہلاک ہوئے۔ ان میں سے اکٹھی 60 ہلاکتیں صوبے کاپیسا میں ہوئیں، جو پاکستان سے افغان دارالحکومت کی جانب جانے والے مرکزی راستے پر واقع ہے۔

ان دستوں نے 2008ء میں اس صوبے میں قدم رکھا تھا، جس کے فوراً بعد طالبان کے ساتھ جھڑپوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اب فرانسیسی اور افغان کمانڈروں کا کہنا ہے کہ اس صوبے میں حالات مستحکم ہو گئے ہیں لیکن اپنے اس دعوے کی تائید میں اُن کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں جبکہ حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کاپیسا صوبے کے چھ میں سے دو اضلاع پر باغیوں کا کنٹرول ہے۔

19 نومبر کی اس تصویر میں فرانسیسی فوجی کابل میں اپنے اڈے پر اپنا ساز و سامان کنٹینرز میں بھر رہے ہیں
19 نومبر کی اس تصویر میں فرانسیسی فوجی کابل میں اپنے اڈے پر اپنا ساز و سامان کنٹینرز میں بھر رہے ہیںتصویر: Reuters

اب کاپیسا صوبے کی سلامتی کی ذمہ داری افغان پولیس اور فوج کے 4700 سپاہیوں کے پاس ہے، جنہیں 250 امریکی فوجیوں کی بھی مدد حاصل ہے۔

پیرس حکومت نے افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ 2011ء اور 2012ء میں کچھ ہلاکت خیز حملوں کے بعد کیا تھا۔ سابق فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے افغانستان میں اپنے ملک کا جنگی مشن 2013ء میں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اُن کے جانشین فرانسوا اولاند نے ایک سال پہلے ہی اس مشن کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک فرانسیسی فوجی ترجمان کے مطابق افغانستان میں فی الحال موجود 2200 فرانسیسی فوجیوں میں سے تقریباً 700 کی وطن واپسی اس سال کے آخر تک عمل میں آ جائے گی۔ اس کے بعد تربیت دینے والے پچاس فرانسیسی فوجی کابل سے مغرب کی جانب وردک صوبے میں جبکہ تقریباً 1500 افغان دارالحکومت کابل میں تعینات رہیں گے، جہاں زیادہ تر کی ذمہ داری 2013ء کے موسم گرما تک تمام فرانسیسی فوجیوں کی وطن واپسی کو منظم کرنا ہو گا۔ چند سو فرانسیسی فوجی اس کے بعد بھی تربیتی مقاصد کے لیے افغانستان ہی میں رہیں گے۔

(aa/mm(afp