افغانیوں کے انخلاء کی جرمن کوششوں میں طالبان کی رخنہ اندازی
8 اگست 2022جرمن حکومت کی کوشش رہی ہے کہ سابق افغان کارکنوں اور ایسے بہت سے دیگر افراد کو ظلم و ستم کے خطرے سے بچانے کے لیے ان کا انخلا مکمل کر لیا جائے، تاہم مبینہ طور پر طالبان ان کوششوں کو روکتے رہے ہیں۔
ایک جرمن نیوز میگزین ڈیر اشپیگل کے مطابق افغانستان میں جرمن اداروں کے ہزاروں سابق مقامی عملے، سیاسی کارکنوں اور فنکاروں کے انخلاء کے لیے برلن کا جو ہنگامی منصوبہ ہے، وہ طالبان کے کنٹرول کے باعث تعطل کا شکار ہے۔
ڈیر اشپیگل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی سے ستمبر کے وسط کے درمیان حکومت کا ہدف 7,700 افراد کو نکالنا تھا۔ تاہم رپورٹ کے مطابق جولائی میں صرف 1,044 افغانوں کو ہی جرمنی لایا جا سکا اور اب یہ ہدف حقیقت پسندانہ نہیں لگتا ہے۔
جرمن دفتر خارجہ نے ملکی پریس ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ افغانستان سے انخلاء کی رفتار کافی سست ہو گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایک ''بڑا مسئلہ'' یہ ہے کہ طالبان صرف پاسپورٹ رکھنے والے شہریوں کو ہی ملک چھوڑنے کی اجازت دے رہے تھے، تاہم شاید ہی کوئی نیا پاسپورٹ جاری کیا جا رہا ہو۔
نیوز میگزین اشپیگل کی اطلاعات کے مطابق طالبان ان بسوں کو بھی روک رہے ہیں، جس میں افغان شہریوں کو سرحد پار ہمسایہ ملک پاکستان لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کے برعکس وہ انہیں واپس جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔
حالانکہ گزشتہ جون میں برلن اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پا یا تھا، جس کے تحت جرمنی کے لیے کام کرنے والے سابق افغان
عملے کو بغیر پاسپورٹ کے بھی پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔
طالبان نے اگست 2021 میں امریکی قیادت والی غیر ملکی افواج کے انخلاء کے دوران ہی افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر انخلاء کی کارروائی افراتفری کا شکار ہو گئی تھی۔ اس وقت بیرونی ممالک کے لیے کام کرنے والے بہت سے لوگ ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
جرمن حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، ایسے تقریباً 10,000 افغان اب بھی ملک چھوڑنے کے منتظر ہیں، جن سے برلن نے جرمنی لانے کا وعدہ کیا تھا۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے جون میں کہا تھا کہ جرمنی نے افغانستان سے تقریباً 21,000 ایسے افراد کو اپنے ساتھ لیا ہے، جنہیں تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، کے این اے)