1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء: واشنگٹن میں غور وخوض

کشور مُصطفیٰ9 جولائی 2013

امریکی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکا 2014 ء میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد جنگ سے تباہ حال اُس ملک مبں اپنا کوئی بھی فوجی نہیں چھوڑنا چاہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/194VO
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی حکام کی طرف سے اس بارے میں دیے گئے تازہ ترین تاثر سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ اس کی وجہ امریکی صدر باراک اوباما اور افغان صدر حامد کرزئی کے مابین کچھ عرصے سے مسلسل چلی آ رہی کشیدگی ہے۔

باراک اوباما 2014 ء کے اواخر تک افغانستان میں اپنی فوجی وابستگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عزم کر چُکے ہیں تاہم واشنگٹن کی طرف سے کابل انتظامیہ کے ساتھ کچھ عرصے سے اس بارے میں بات چیت کا سلسلہ جاری ہے کہ 2014 ء میں غیر ملکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی امریکا اپنا ایک چھوٹا فوجی دستہ وہاں تعینات رکھے گا۔ غالباً 8000 فوجیوں پر مشتمل۔

اس سلسلے میں حال ہی میں اخبار نیو یورک ٹائمز میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق باراک اوباما افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ باہمی روابط سے سخت مایوس ہیں۔ دوطرفہ تعلقات کی خرابی میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب واشنگٹن نے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کرنے کی بات کی۔

Afghanistan Protest US Stützpunkt Bagram
بگرام میں امریکی فوجی بیستصویر: AP

27 جون کو اوباما اور کرزئی کے مابین ایک کانفرنس کال کا اہتمام کیا گیا تھا جس کا مقصد دوطرفہ تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش تھا، تاہم یہ کال مزید تلخیوں پر ختم ہوئی۔ نیو یارک ٹائمز نے اپنی ویب سائٹ پر اس بارے میں افغان اور امریکی دونوں اہلکاروں کے ذرائع کے حوالے سے رپورٹنگ کی۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی حکام نے اس امر کی تردید نہیں کی ہے کہ باراک اوباما افغان صدر کے رویے سے مایوس ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر نے امریکا پر افغان طالبان اور اُن کے پاکستانی حامیوں کے ساتھ امن کے قیام کی علیحدہ کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن کے اس اقدام سےکرزئی حکومت اپنے دشمنوں کے سامنے بے نقاب ہو جائے گی۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ سے یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ کرزئی اور اوباما کے مابین ہونے والی ویڈیوکانفرنس کے بعد سے کابل اور واشنگٹن دونوں طرف افغانستان سے امریکی فوج کے ویسے ہی مکمل انخلاء کے متبادل پر غور کیا جا رہا ہے جیسا کہ عراق میں ہوا تھا۔ جبکہ عراق سے مکمل فوجی انخلاء کے بعد کی صورت حال ملک کا اب تک کا بدترین منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔ امریکی حکام نے اس رپورٹ کی وضاحت طلب کر لی ہے۔ رپورٹرز نے وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے نائب مشیر ’بن روہڈز‘ کے حوالے سے لکھا تھا کہ انہوں نے جنوری میں ایک بیان میں کہا تھا ’ افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء ایک متبادل ہے یعنی ایک بھی فوجی وہاں نہ چھوڑنے کے فیصلے پر انتظامیہ غور کر رہی ہے‘۔

Hamid Karzei zu Besuch bei Barack Obama in Washington
افغان صدر متعدد بار امریکی صدر سے ملاقات کے لیے امریکا جا چُکے ہیںتصویر: Reuters

اخبار کی رپورٹ کے بارے میں ایک امریکی اہلکار سے سے جب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا،’ تمام متبادل موجود ہیں اور مذاکرات کی میز پر ہیں تاہم اس بارے میں کوئی فیصلہ ابھی دور کی بات ہے۔ اس سلسلے میں جن امریکی اہلکاروں کا اخبار نے حوالہ دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ فوجی انخلاء کی رفتار اور وسعت کے بارے میں کوئی فیصلہ ابھی نہیں ہوا ہے۔ کیونکہ عراق سے زیادہ تر فوجیوں کے انخلاء کے وقت امریکی حکام نے ایک چھوٹے دستے کو ملک میں مزید تعینات رکھنےکے بارے میں غور کیا تھا تاہم عراقی لیڈروں کے ساتھ کسی ایسے معاہدے پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔ اُدھر کابل میں ایک مغربی اہلکار کے ایک بیان کا حوالا دیتے ہوئے اخبار نیو یارک ٹائمز تحریر کرتا ہے،’ ایک زیرو آپشن ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اس بارے میں واشنگٹن میں چند لوگوں کی طرف سے اس متبادل کو عملی طور پر ممکن سمجھا جا رہا ہے۔‘

گزشتہ ماہ افغانستان میں ایک درجن سے زیادہ امریکی فوجی مارے گئے۔ اس وقت افغانستان میں قریب 63 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جن کی تعداد آئندہ فروری تک کم کرکے 34 ہزار کر دی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے کہ دیا گیا ہے کہ آئندہ سال 2014 ء کے اواخر تک امریکی فورسز کا اکثریتی حصہ وہاں سے نکل جائے گا۔

امریکی فوج 2001 ء سے افغانستان میں تعینات ہے۔ امریکا کی طرف سے افغانستان پر حملہ طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے کیا گیا تھا۔ واشنگٹن نے طالبان پر دہشت گرد تنظیم القائدہ کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا تھا۔