1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: خواتین پر روز افزوں تشدد

5 دسمبر 2012

افغانستان میں صنفی تشدد کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کم عمر لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے، بیویوں اور بیٹیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ’اخلاقی جرائم‘ کے لیے خواتین کو انتہائی سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/16wDH
تصویر: Yakobali Madani

تاہم سرکاری حکام اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا یہ ہے کہ اب ایسے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ نہ صرف اب ایسے واقعات تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ وہ پہلے سے زیادہ سنگین بھی ہیں۔

افغانستان کے آزاد ہیومن رائٹس کمیشن (AIHRC) کا اندازہ ہے کہ 2012ء کے آخری چھ ماہ کے دوران گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس سال بارہ اکتوبر کو شمال مغربی صوبے ہرات کے ضلع انجیل میں شلبافان نامی گاؤں میں تین افراد کو ماہ گل نامی ایک خاتون کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس خاتون کا سر تن سے جدا کر دیا گیا تھا۔

کابل میں خواتین پر تشدد کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے کا منظر
کابل میں خواتین پر تشدد کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے کا منظرتصویر: DW

اس مقتولہ کا بھائی اُس کی لاش لے کر ہرات شہر میں خواتین کے امور کے ڈیپارٹمنٹ میں پہنچ گیا۔ اُس نے الزام لگایا کہ اُس کی بہن اپنے شوہر اور دیگر سسرالی رشتے داروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئی ہے، جس پر مقتولہ کے شوہر اور سسرالی عزیزوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

خواتین کے شعبے کی سربراہ محبوبہ جمشیدی نے اس امر کی تصدیق کی کہ ماہ گل کا بھائی عبد القادر اُس کی لاش لے کر آیا تھا۔ مقتولہ ماہ گل کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اُس کی ساس اُسے جنسی کاروبار کے لیے مجبور کرنا چاہتی تھی اور مزاحمت کرنے پر اُسے قتل کر دیا گیا۔

چند ماہ قبل کلثوم نامی ایک خاتون کو بے رحمی کے ساتھ اُس کے والد کے گھر پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اُس نے اپنے شوہر کو اپنی بیٹی کو فروخت کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ کلثوم اپنے بچوں کو لے کر اپنے میکے چلی گئی تھی، جہاں اُس کے شوہر نے اُس کا پیچھا کیا اور اُسے قتل کر دیا۔

گزشتہ مہینے اخبارات میں کلثوم نام ہی کی ایک اور خاتون کی رہائی اور ہسپتال منتقلی کے بارے میں رپورٹ شائع ہوئی، جسے بدخشاں صوبے میں ایک ’نجی جیل‘ میں رکھا گیا تھا، جہاں اُس کا شوہر اُسے تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔ اسسٹنٹ پروفیسر زوفانون حسام نے، جو خواتین کے امور کے صوبائی دفتر کے سربراہ ہیں، بتایا کہ بعد ازاں ہسپتال میں کلثوم نے ایک انتہائی کمزور بچے کو جنم دیا۔

ہسپتال میں داخل اس افغان خاتون نے مبینہ طور پر اپنے رشتے داروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے کے بعد خود سوزی کی کوشش کی تھی
ہسپتال میں داخل اس افغان خاتون نے مبینہ طور پر اپنے رشتے داروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے کے بعد خود سوزی کی کوشش کی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

اس سال کے اوائل میں پولیس نے سحر گل نامی ایک خاتون کو رہائی دلوائی تھی، جس کی شمال مشرقی صوبے بغلان میں ایک شخص کے ساتھ پیسے لے کر شادی کر دی گئی تھی۔ اُس کی ساس بھی اُسے جسم فروشی پر مجبور کرنا چاہتی تھی۔

اس سال 27 جون کو کچھ افراد نے ایک 13 سالہ لڑکی شازیہ کو اغوا کرنے کی کوشش کی اور مزاحمت پر اُس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ پولیس اس کیس میں تین افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ 80 فیصد واقعات میں اٹھارہ سال سے کم عمر کی بچیاں تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔

خواتین کے امور کی وزارت کے مطابق 2012ء میں خواتین پر تشدد کے سلسلے میں مجموعی طور پر 471 کیس درج ہوئے۔ پچاس فیصد سے زیادہ کیس قتل کے تھے۔ دیگر کیسز میں خود کُشی اور خود سوزی کے بھی واقعات شامل تھے۔ مجموعی طور پر گزشتہ برسوں کے مقابلے میں خواتین کے خلاف تشدد کا رجحان بڑھتا نظر آ رہا ہے۔

(aa/ij(ips