'افغانستان خطرناک ملک ہے، مہاجرین کو واپس نہ بھیجا جائے‘
11 اکتوبر 2018انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کے مطابق افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں شہریوں کو بہت پُر تشدد حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس حوالے سے شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اس کے باوجود یورپی یونین کی بعض ریاستیں افغان مہاجرین کی ڈی پورٹیشن جاری رکھنے کے معاملے میں پُر جوش نظر آتی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ سمیرا حمیدی بخوبی جانتی ہیں کہ افغانستان میں رہنے والے شہری کن صعوبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ حمیدی نے چند ماہ قبل ہی اس تنظیم میں ملازمت کی ہے۔ اس سے قبل ساری زندگی انہوں نے ملک میں خواتین کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے گزار دی۔ سمیرا کا کہنا تھا،’’ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ آپ جو گھر صبح سلامت چھوڑ کے جائیں گے وہ واپسی پر آپ کو پورا ملے گا بھی یا نہیں۔‘‘
سمیرا حمیدی کے ان خدشات کی تصدیق افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے معاون مشن ’یوناما‘ کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار نے بھی کر دی ہے۔ یوناما کے مطابق امسال اب تک بم حملوں اور پُر تشدد واقعات میں کم و بیش اتنے ہی شہری ہلاک ہو چکے ہیں جتنے سن 2017 میں ہوئے تھے۔
حمیدی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے اُس مہم کی قیادت بھی کر رہی ہیں جس میں یورپی ممالک سے افغان مہاجرین کی ڈی پورٹیشن معطل کرنے کو کہا گیا ہے۔
حمیدی نے ایک مظاہرے کے دوران ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ افغانستان میں شورش بڑھتی جا رہی ہے۔ کم سن بچوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو واپس ایسے ملک میں بھیجنا، جو وہاں پیدا بھی نہیں ہوئے اور نہ ہی اس ملک کو جانتے ہیں، اور ایسے افراد کو بھی واپس بھیجنا جو بہت دشوار گزار سفر کے بعد بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ پہنچے، بے حد نا انصافی ہے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ناروے، جرمنی، سویڈن اور ہالینڈ سے واپس افغانستان بھیجے جانے والے مہاجرین کے کیسز کو دستاویز کیا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جو واپس لوٹنے پر ہلاک ہو گئے۔ اور جو زندہ ہیں وہ سب بھی ایک مستقل خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔
'دی یورپین کونسل آن ریفیوجیز اینڈ ایگزائلز‘ نامی تنظیم نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس کی رُو سے افغان مہاجرین کی ملک بدریوں کے معاملے میں سب سے زیادہ سختی کا مظاہرہ کرنے والا ملک ناروے ہے۔
ص ح / ع ا