1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: آخری امریکی اور برطانوی دستوں کا آپریشن ختم کرنے کا فیصلہ

کشور مصطفیٰ26 اکتوبر 2014

اتوار 26 اکتوبر کو افغانستان متعینہ امریکی اور برطانوی جنگی دستوں نے اپنا مشن سرکاری طور پر مکمل کرتے ہوئے اپنے آپریشن کے اختتام پر امریکی اور برطانوی فوجی اڈے افغان فوج کے حوالے کر دیے۔

https://p.dw.com/p/1DcJC
تصویر: Reuters/D. Kitwoood

ہندو کُش کی ریاست افغانستان میں 13 سال تک امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی افواج تعینات رہیں اور وہاں کے مقامی ہیڈ کوارٹرز میں ان ممالک کے پرچم لہراتے رہے۔ ایک عشرے سے زیادہ عرصے کے بعد آج ریجنل ہیڈ کوارٹرز سے برطانیہ اور امریکا کے پرچم اتار لیے گئے ہیں اور دیگر سامانِ حرب کے ساتھ ساتھ ان جھنڈوں کو لپیٹ کر افغانستان سے حتمی انخلاء کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔

2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کا سبب بننے والے امریکی فوجی حملے اور امریکا کے ایماء پر شروع ہونے والی اتحادی افواج کی جنگ امریکا کی طرف سے اب تک لڑی جانے والی جنگوں میں طویل تر جنگ ثابت ہوئی ہے۔

افغان صوبہ ہلمند اسٹریٹیجک اعتبار سے اہم ترین صوبہ مانا جاتا ہے۔ یہاں پر قائم غیر ملکی افواج کے فوجی اڈوں سے فوجیوں کے انخلاء کے وقت کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر خفیہ رکھا گیا تھا۔

Afghanistan US Soldaten mit afghanischen Soldaten Archiv 2009 Kabul
افغانستان میں ’کیمپ لیدر نَیک‘ سب سے بڑا امریکی فوجی بیس ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Marcel Mettelsiefen

افغانستان میں ’کیمپ لیدر نَیک‘ سب سے بڑا امریکی فوجی بیس ہے، جسے اتحادی فوج کے مشن کے اختتام پر افغانستان کے سلامتی کے اداروں کے سُپرد کیا جا رہا ہے۔ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد ملک میں طالبان بغاوت کا مقابلہ افغان فوج اور پولیس ہی کو کرنا ہو گا۔

اُدھر برطانوی فوج نے بھی اسی وقت اپنے ’کیمپ بیستین‘ کی منتقلی کا کام شروع کر دیا۔ افغانستان کے جنوب مغرب میں کبھی امریکا اور برطانیہ کا مشترکہ فوجی اڈہ ہوا کرتا تھا، جس میں 40 ہزار فوجی تعینات تھے اور یہ اتحادی افواج کا ریجنل کمانڈ بیس تھا۔ کنکریٹ کی دیواریں اور خاردار باڑ اب خالی بیرکس کی حفاظت کر رہی ہیں۔ دفاتر سنسان پڑے ہیں اور بل بورڈز پر امریکی فوجیوں کی تصاویر باقی رہ گئی ہیں۔

امریکی فوج کے ایک کپتان رائن اسٹین برگ کی ٹاسک فورس انخلاء کے کام کی نگرانی کر رہی ہے اور یہی دستہ افغانستان سے سب سے آخر میں نکلے گا۔ اسٹین برگ کہتے ہیں، "اب یہ بالکل خالی ہے، جب میں یہاں آیا تھا، اُس وقت یہاں بہت ہلچل ہوتی تھی۔ بہت سے کارکن اور لوگ ارد گرد ہوا کرتے تھے۔ اب سب کچھ بکھرا ہوا، ٹکڑوں اور حصوں میں نظر آ رہا ہے، نہایت عجیب منظر ہے"۔

Afghanistan Soldat mit US Soldaten 29.03.2014
غیر ملکی افراج کے انخلاء کے بعد افغان نیشنل آرمی پر ملک کی سلامتی کی تمام تر ذمہ داری عائد ہوگیتصویر: Getty Images/Scott Olso

تازہ ترین اندازوں کے مطابق اس بیس پر مشترکہ بین الاقوامی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار تھی۔ ان میں سے جو آخری فوجی بچے ہیں، وہ بھی جلد چلے جائیں گے۔

غیر ملکی افراج کے انخلاء کے بعد افغان نیشنل آرمی کا 215 واں دستہ 6,500 ایکڑ رقبے پر قائم اس ہیڈ کوارٹر میں تعینات ہو گا اور اس طرح ہلمند فوجی بیس میں کوئی غیر ملکی فوجی نظر نہیں آئے گا۔

صوبے ہلمند میں افغانستان کی افیون کی کُل پیداوار کا 80 سے 90 فیصد تک پیدا ہوتا ہے اور افیون کا کاروبار ہی طالبان بغاوت کے لیے مالی وسائل فراہم کرتا ہے۔ اس علاقے میں رواں سال طالبان اور اتحادی افواج کے مابین ضلع سنگین کو افغان فوج اور پولیس کے قبضے سے چھڑانے کے لیے گھمسان کی جنگ ہوتی رہی ہے، جس کی وجہ سے اب افغانستان کی سلامتی کے اداروں کی صلاحیت پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا افغان فوج اور پولیس امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی انٹیلی جنس اور فضائی مدد کے بغیر طالبان کی بپا کی ہوئی شورش روکنے کی حقیقی معنوں میں صلاحیت رکھتی ہیں؟