1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ اصل امتحان اب ہے‘ ۔ احمد شہزاد کی ڈی ڈبلیوسے خصوصی بات چیت

طارق سعید، ابوظہبی10 نومبر 2014

سیزن کی دوسری سینچری بنانے والے پاکستانی اوپنر احمد شہزاد کہتے ہیں کہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز اپنی فارم کیش کرانے کا وقت ہے۔ احمد کے بقول آسٹریلیا کے خلاف کامیابی نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dk30
تصویر: DW/T. Saeed

احمد شہزاد نے نیوزی لینڈ کے خلاف شیخ زید اسٹیڈیم میں پہلے ٹیسٹ میں ہٹ وکٹ ہونے سے پہلے ایک سو چھہتر رنز کی یادگار اننگز کھیلی۔ دو برس تک سلیکٹرز کے سامنے جگر آزمانے والے احمد کو ٹیم میں واپسی ایسی راس آئی ہے کہ وہ گزشتہ بارہ ماہ میں بین الاقوامی کرکٹ میں سات سینچریاں داغ چکے ہیں۔

ابوظہبی میں ڈوئچے ویلے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے شہزاد نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے باؤلرز آسٹریلوی باؤلرز کی طرح تیز نہیں مگران کی نپی تلی باؤلنگ اور پھرتیلی فیلڈنگ کے سامنے سینچری آسان نہ تھی۔ ’’میں نے ٹیم کی ضرورت کے مطابق سر جھکا کر بیٹنگ کی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز پاکستانی ٹیم اور میرے لیے فارم کو کیش کرانے کا بہترین وقت ہے۔‘‘

احمد شہزاد مزید کہتے ہیں کہ دو سینچریاں بنانے کے بعد دوہزار گیارہ میں ٹیم سے باہر ہونا بہت تکلیف دہ دور تھا۔’’ کارکردگی کے باوجود ڈراپ کیے جانے پر مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی۔ میں چھپ چھپ رویا کرتا تھا۔ کرکٹ میری زندگی ہے اور میں نے تہیہ کیا تھا کہ مجھے اپنی زندگی واپس لینی ہے۔ میں نے ٹیم سے باہر رہ کر بہت کچھ سیکھا۔ اسی دور میں اپنے پرائے کا بھی اندازہ ہوا۔ اس لیے جب ٹیم میں واپس آیا تو اپنے آپ سےکہا کہ اب باہر ہونے کی نوبت نہیں آنے دوں گا۔‘‘

Pakistan Sport Cricket
تصویر: Tariq Saeed

احمد شہزاد پاکستان کے واحد کھلاڑی ہیں جو ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی ٹیموں کے مستقل رکن ہیں۔ احمد کہتے ہیں کہ تینوں فارمیٹس کھیلنا جان جوکھوں کا کام ہے۔’’میں زندگی سے محظوظ ہونے والا شخص ہوں اور لوگ مجھے صرف اسی حوالے سے جانتے ہیں مگر ان سینچریوں کے پیچھے جو خون پسینہ ایک کرتا ہوں تصویر کے دوسرے رخ کا کسی کو اندازہ نہیں۔‘‘

احمد شہزاد کہتے ہیں کہ کرکٹ بہت زیادہ اور مشکل ہو گئی ہے۔ پرانے زمانے میں ایک سینچری کی یاد مہینوں رہتی تھی اب کرکٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے سینچری کے بعد دو اننگز بری جائیں تو پچھلی کارکردگی ایک ہفتے میں ہی فراموش کردی جاتی ہے۔ اب کرکٹ ایڈاوانس ہو گئی ہے۔ بطور بیٹسمین ہرپہلو سے لڑنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے بڑھ چڑھ کر سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے چیلنجز پسند ہیں۔‘‘

پاکستان ٹیم کی حالیہ فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے احمد کہتے ہیں پہلے ہم اچھا کھیل کر بھی ہار رہے تھے۔ دورہ سری لنکا کے بعد سب نے سرجوڑ کر ازسر نو سوچنا شروع کیا۔ دماغ سوزی کی اور آسٹریلیا سیریز نے سب کچھ بدل دیا۔ پاکستانی ٹیم بلند مقام پہنچ چکی ہے۔ اب اصل امتحان اس اعلیٰ معیار کو برقرا رکھنا ہو گا۔