1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اشرف غنی مجھ سے کیوں ناراض ہوئے؟

18 اگست 2021

صحافی کا کام حقائق سامنے لانا ہوتا ہے۔ حقائق سامنے لانے پر کوئی ہم سے ناراض ہو جاتا ہے اور کوئی خوش ہوتا ہے۔ تقریبا دو ماہ قبل افغانستان کے مفرور صدر اشرف غنی بھی مجھ سے ناراض ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/3z7s1
Pakistan Journalist Hamid Mir
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

 22 جون کو ڈی ڈبلیو اردو کے لیے میرا ایک کالم شائع ہوا، جس کا عنوان تھا، ''افغان طالبان پر پاکستان کا کتنا اثر ہے؟‘‘ اس کالم میں یہ خبر بریک کی گئی تھی کہ افغانستان کے صوبے لوگر کے ضلع محمد آغا کے گاؤں سرخاب میں اشرف غنی کے آبائی گھر پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے اور ان کے گھر پر امارت اسلامیہ کا پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا کہ سرخاب دارالحکومت کابل سے صرف تیس کلومیٹر دور ہے۔ میں نے یہ اطلاع بھی دی کہ طالبان کا اشرف غنی کے کچھ قریبی ساتھیوں سے رابطہ ہے اور وہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے اور بہت جلد کوئی بڑا سرپرائز دیں گے۔

بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں میرا تجزیہ یہ تھا کہ اشرف غنی کابل کے صدارتی محل سے بھاگ کر کسی دوسرے ملک میں پناہ لے سکتے ہیں اور طالبان کی بجائے پاکستان پر غصہ نکالیں گے اور طالبان پر پاکستان کا اتنا اثر نہیں رہے گا۔ اس کالم کے شائع ہونے پر اشرف غنی کے میڈیا آفس نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ سرخاب میں اشرف غنی کے گھر پر طالبان کا قبضہ نہیں ہے۔ اشرف غنی کہیں نہیں جائیں گے اور وہ طالبان کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔ میں نے اشرف غنی کے ترجمان سے کہا کہ آپ اپنا موقف مجھے بھجوا دیں میں کسی اور کالم میں آپ کا موقف شامل کر دوں گا۔ انہوں نے بڑے تلخ لہجے میں کہا کہ آپ اپنی غلط خبر پر معذرت کریں اور بتائیں کہ سرخاب میں اشرف غنی کے گھر پر طالبان کا کوئی قبضہ نہیں ہے۔

میں نے لوگر میں ایک افغان صحافی سے پوچھا کہ کیا اشرف غنی کے گھر پر طالبان کا قبضہ ختم ہو گیا ہے؟ اس نے بتایا کہ قبضہ برقرار ہے۔ پھر میں نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا آپ کے جنگجو ابھی تک سرخاب میں اشرف غنی کے گھر پر موجود ہیں؟ ذبیح اللہ مجاہد نے سرخاب میں اپنے ساتھیوں کی اشرف غنی کے گھر کے اندر ان کے رشتہ داروں کے ساتھ گفتگو کی ویڈیو مجھے بھیج دی۔ میں نے یہ ویڈیو اشرف غنی کے ترجمان کو بھیج دی اور پھر ان کی کال نہیں آئی۔

معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ افغانستان کے مفرور نائب صدر عبدالرشید دوستم کے ایک ساتھی نے بھی طویل عرصے کے بعد رابطہ کیا اور کہا کہ طالبان کبھی مزار شریف اور کابل پر قبضہ نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اشرف غنی کے قریبی ساتھی متحد ہیں اور کسی کا طالبان سے کوئی رابطہ نہیں۔ 15 اگست کی شام، جب یہ خبریں آنے لگیں کہ طالبان کابل میں داخل ہو چکے ہیں، تو میں نے دوحہ میں طالبان کے ایک رہنما سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ ہنسنے لگے اور کہا کہ آپ سہیل شاہین سے بات کریں۔ سہیل شاہین نے فرمایا کہ ہم طاقت کے زور پر کابل میں داخل نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف طالبان کابل کے صدارتی محل پر قبضہ کر چکے تھے۔ اشرف غنی یہ کہہ کر بھاگ نکلے کہ میں نے کابل کو قتل و غارت سے بچا لیا۔ طالبان یہ کہہ کر کابل میں آ گئے کہ وہ قتل و غارت اور لوٹ مار روکنے آئے ہیں۔

15 اگست کی رات جب الجزیرہ ٹی وی نے طالبان کو کابل کے صدارتی محل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے دکھایا تو میں اشرف غنی کے اس ترجمان کو ڈھونڈ رہا تھا، جس نے کہا تھا کہ ہم طالبان سے لڑیں گے۔ مجھے بہت سے افغان صحافیوں نے پوچھا کہ جو خبر 15 اگست کی صبح تک ہمارے لیے ناقابل یقین تھی، وہ خبر آپ نے دو ماہ قبل ڈی ڈبلیو کے کالم میں کیسے بریک کی؟ میں نے بتایا کہ دو ماہ قبل صرف مجھے نہیں بہت سے باخبر لوگوں کو پتا چل چکا تھا کہ طالبان نے پاکستان کے شدید اصرار کے باوجود ترکی میں امن کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اشرف غنی کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔

ایک طالبان رہنما نے مجھے کہا کہ پاکستان کے بااختیار لوگ عمران خان اور نواز شریف کی صلح تو کرا نہیں سکتے اور ہمیں اشرف غنی کے ساتھ شراکت اقتدار کا سبق سنا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کی شکست بہت پہلے ہو چکی تھی۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر اپنے حملے کو صلیبی جنگ قرار دیا تھا اور اس صلیبی جنگ کی اصطلاح کا سب سے زیادہ فائدہ طالبان نے اٹھایا۔ انہوں نے اپنی مزاحمت کو جہاد قرار دیا۔ وہ افغانستان میں اسلامی شریعت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ملا عبدالغنی برادر برا نہ منائیں تو ان سے سوال ہے کہ اسلام میں عہد پر قائم رہنے کی بڑی اہمیت ہے۔ انہوں نے پچھلے سال دوحہ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے اور وعدہ کیا کہ وہ مذاکرات اور اتفاق رائے سے معاملات طے کریں گے لیکن کیا کابل پر قبضہ کر کے انہوں نے اپنا عہد نہیں توڑا؟ مجھے امید ہے کہ وہ اشرف غنی کی طرح مجھ سے ناراض نہیں ہوں گے اور اس سوال کا وضاحت سے جواب دیں گے۔

میں نے دو ماہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ افغان طالبان پر پاکستان کا زیادہ اثر و رسوخ نہیں رہا۔ عمران خان بھلے کہیں کہ افغانستان میں غلامی کی زنجیریں توڑ دی گئی ہیں اور ڈاکٹر شیریں مزاری بھی افغانستان میں امریکی شکست کا ویت نام میں شکست سے تقابل کرنے میں آزاد ہیں لیکن مت بھولیں کہ جس پرویز مشرف نے طالبان کے خلاف بمباری کے لیے امریکا کو پاکستانی میں فوجی اڈے دیے، اس مشرف کے بہت سے ساتھی آج عمران خان کی کابینہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

 طالبان کی فتح پر جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں خوشی منائیں تو سمجھ میں آتا ہے لیکن عمران خان یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ غلامی کی زنجیریں توڑ دی گئیں۔ غلامی کی یہ زنجیریں تو پاکستان کی ریاست نے امریکا کے ساتھ مل کر طالبان کو پہنائی تھیں اور ان کے پاکستان میں سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے کپڑے اتار کر انہیں امریکا کے حوالے کیا تھا۔ ملا ضعیف کے کپڑے اتارنے والے جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر جب کوئی غلامی کی زنجیریں توڑنے کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل دوسروں کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے آپ کو بے وقوف بنانا بند کیجیے! افغانستان کی فکر چھوڑیے، اپنی فکر کیجیے اور ایسے بیانات نہ دیں کہ دنیا آپ کو ان گناہوں کی سزا دینے پر بھی تل جائے، جو آپ نے نہیں کیے۔ مجھے پتا ہے کہ میری تلخ نوائی پر پاکستان کے ارباب اختیار ناراض ہوں گے اور طالبان بھی ناراض ہو سکتے ہیں لیکن کیا کریں؟ ہمارا کام حقائق سامنے لانا اور سوال کرنا ہے، ہم صحافی لوگ ہر وقت ہر کسی کو خوش نہیں رکھ سکتے۔