اسلام آباد کا ماحول کشيدہ، فضل الرحمن کی اہم تقرير
1 نومبر 2019پچھلے سال انتخابات ميں کاميابی کے بعد وزير اعظم عمران خان کے ليے يہ احتجاج اب تک کا سب سے بڑا چيلنج ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے قومی سطح کی دو مرکزی اپوزيشن جماعتوں کی حمايت سے اس ريلی کی قيادت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اپوزيشن کا موقف ہے کہ موجودہ حکومت کو ملک کی طاقت ور فوج کی پشت پناہی حاصل ہے اور اسی سبب وہ وزير اعظم اور حکومت کو ’ناجائز‘ قرار ديتے ہيں۔
مولانا فضل الرحمن کو ملک کے قدامت پسند و مذہبی حلقوں کی حمايت حاصل ہے۔ جميعت علماء اسلام کے رہنما فضل الرحمن نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر ريلی ميں شريک افراد کے مطالبات پورے نہ کيے گئے، تو افراتفری پھيل سکتی ہے۔ وہ جمعے کی نماز کے بعد اجتماع سے تقرير کر رہے ہيں۔
اس موقع پر اسلام آباد ميں سکيورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کيے گئے ہيں۔ يہ ريلی اسلام آباد ميں ڈپلوميٹک کواٹرز کے کافی قريب نکالی جا رہی ہے۔ حکام نے بڑے بڑے کنٹينرز کھڑے کر کے اہم سرکاری عمارات و مقامات کے راستے بلاک کر رکھے ہيں۔ اس وقت پاکستانی دارالحکومت ميں حالات کشيدہ ہيں۔ مقامی ذرائع کے مطابق اسکول وغيرہ بند ہيں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں پر دکھائی نہيں دے رہا۔ قبل ازيں وزير اعظم خان نے دھمکی دی تھی کہ سڑکوں پر کسی بھی قسم کی افراتفری برداشت نہيں کی جائے گی۔
عمران خان اپوزيشن کی جانب سے استعفے کا مطالبہ مسترد کر چکے ہيں۔ علاوہ ازيں پاکستانی فوج نے بھی اپوزيشن کی جانب سے لگائے گئے مداخلت کے الزامات کو رد کيا ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس کا ملکی سياست ميں کوئی عمل دخل نہيں۔ فوجی چيف قمر جاويد باجوہ نے البتہ وزير اعظم خان سے درخواست کی ہے کہ وہ احتجاج سے پر امن طريقے سے نمٹيں۔ فوجی ترجمان نے فريقين پر زور ديا کہ وہ کسی بھی قسم کے تشدد سے پرہيز کريں۔
عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ملک سے کرپشن اور غربت کے خاتمے کے بڑے بڑے وعدے کيے تھے۔ تاہم ملکی معيشت مشکلات کا شکار ہے۔ افراط زر کی شرح بھی کافی اونچی ہے اور ملک کا عام آدمی اس سے متاثر ہو رہا ہے۔
ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں